کیا آپ مہاراج ہری رام کو جانتے ہیں؟ کیا آپ ان کی عملیات کی کاٹ کی کرامات سے واقف ہیں؟ کیا آپ ان کے تعویزات کا جادو جانتے ہیں ؟کیا آپ جانتے ہیں کہ روزگار میں برکت کے عمل کے وہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں؟کیاآپ ان کا موبائل فون نمبر جانتے ہیں؟ یا پھر آپ کوحنیف بنگالی سے ملاقات کا شرف حاصل ہے ؟کالے جادو کی کاٹ اور سفلی عمل میں ان کا فن کبھی آپ نے دیکھا ہے ؟اچھا سائیں قادر شاہ کے درشن تو آپ نے کیے ہوں گے۔کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ محبوب آپ کے قدموں میں لاپٹختے ہیں ۔ ان کے ایک بار کے عمل سے آپ کے رکے ہوئے کام منٹوں میں ہو جائیں گے۔ جھوٹ نہ بولیں تو آپ میں سے کئیوں نے اپنی بچیوں کی شادی کے سلسلے میں حجن اچھی باجی سے تو ضرور رابطہ کیا ہوگا ۔ان کو بتایا ہوگا کہ بچیوں کے سروں میں چاندی اترنے لگی ہے مگر کوئی سونے جیسا داماد نہیں ملا اور کسی رشتے دار کی پیدا کردہ بندش کے بارے میں جاننے کے بعد مصلے بچھا کر اس کو پکارا ہوگا جو حجن اچھی باجی سے پہلے سے بتارہا تھا '' ان اللہ السمیع الدعا‘‘۔ یہ تمام صاحبان عمل ان دنوں کراچی میں نالوں اور پارکس کی اندرونی و بیرونی دیواروں پراپنی '' کومپنی کی مشہوری‘‘ کررہے ہیں۔ یہ کام پہلے بھی ہورہا تھا لیکن اس کی جتنی آزادی اب ہے، پہلے کبھی نہ تھی ۔
دیواروں پر ہاتھ صاف کرنے والوں کے ساتھ ساتھ کراچی میں جگہ جگہ کوئی نہ کوئی دیوار گریہ بھی کررہی ہے ،ان کا جو قوم کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔جگہ جگہ بینرز، پوسٹرز اور ہورڈنگز اعلان کررہے ہیں ان کی جانب سے قوم کو منانے اور '' بنانے ‘‘ کا جو سال ختم ہونے سے تین دن پہلے تک ایک دوسرے کو نہیں منا سکے ۔اس کے علاوہ وہ بھی اپنے اعلانات کے ساتھ ساتھ اس تشہیری مہم کے ذریعے عوام میں موجود ہیں جو اپنی صورت کے ساتھ عوام میں موجود نہیں ۔لیکن شہر کے کچھ سٹیک ہولڈرز نے شاید اپنا طرز سیاست بدلا ہے ( وقتی طور پر یا مکمل طورپر،کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا )، اس لیے یہ لوگ اس مہم میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔دفتری اور گھریلو مصروفیات کی بنا پر میرا کراچی آنا ڈیڑھ سال بعد ہوا ہے ۔پہلے ہر چارساڑھے چار مہینے میں ایک آدھ بار آنا ہو ہی جاتا تھا اسی لیے شاید مجھے احساس کم ہوتا تھا لیکن کراچی آکر مجھے بہت برا لگا شہر کی سڑکوں کا حال، ایسا ہے کہ جیسے '' ڈرٹ بائیک ریس کا ٹریک ‘‘ ۔ گندگی اتنی ہے کہ اب پورا شہر نصف ایمان کے ساتھ جی رہا ہے۔
پہلے شہر میں جگہ جگہ کچرا کنڈی تھی مگر ا ب شہر کی ہر جگہ خود ایک کچرا کنڈی ہے ۔آپ کو شہر میں ہر سڑک ،ہر گلی میں کچرے کا ڈھیر ایسے نظر آئے گا جیسے یہ کوئی قابل فخر کام ہو ۔مزار قائد کے عقب میں نیو ایم اے جناح روڈ سے شاہراہ قائدین کی جانب مڑیں تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ آپ مرکزِ شہر کونہیں بلکہ ایک ڈمپنگ سائٹ کو جارہے ہیں ۔کراچی میں میرے ایک عزیز دوست نے اپنا گھر شفٹ کیا ہے ۔ میں نارتھ کراچی میں ان سے ملنے ان کے گھر جانا چاہ رہا تھا ۔ انہوں نے مجھے ایڈریس سمجھاتے ہوئے کہا کہ سلیم سینٹر کے بعد یو ٹرن کرکے سروس روڈ پر پاور ہاؤس کی طرف مڑجانا ، اپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے جاؤ ،جب لیفٹ پر کچرے کا بڑا سا ڈھیر آئے گا تو اس کے بالکل سامنے رائٹ کی گلی میں مڑ کر مجھے کال کرنا میں نیچے آجاؤں گا ۔ہوا یہ کہ کچرے کے بڑے ڈھیر کے چکر میں تین بار میں غلط مڑا ۔ یہ حال آپ کو شہر میں جگہ جگہ نظر آئے گا کیا ،نارتھ کراچی ، کیا نارتھ ناظم آباد ،کیا لانڈھی کورنگی اور کیا اورنگی ٹاؤن ۔ جہاں سڑک ٹوٹی وہاں پانی بھی کھڑا ملے گا ۔ ایسا لگتا ہے کوئی وا ٹرایکسپلوریشن مہم چل رہی ہے ۔ایک صحافی دوست سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو ہوگا، کیونکہ سیاسی جماعتوں نے ورکرز کوسرکاری محکموں میں '' ایڈجسٹ ‘‘کرادیا ہے ۔اب پڑھا لکھا بیروزگار یا نیم خواندہ شہری نوجوان صفائی تو کرنے سے رہا وہ صرف تنخواہ لے گا اس لیے محکمے بن گئے سفید ہاتھی اوراب شہر کی صفائی سے پہلے ان محکموں کی صفائی لازمی ہوچکی ہے ۔ میںنے دریافت کیا کہ یہ بتاؤ کہ پانی کا مسئلہ اتنا ٹیڑھا کیوں ہے ؟ پہلے بھی پانی خرید کر استعمال کرتے تھے مگر اب تو واٹر ٹینکر شہریوں کی قوت خرید سے بالکل ہی باہر ہوگیا ہے ۔ جواب آیا :ایک بااثر شخصیت کا کراچی میںپانی چوری کا دھندہ عروج پر ہے ۔ یہ وہی موصوف ہیں جن کو ان کے پارٹی دوست انیل کپور سے ملاتے ہیں ۔ میں نے کہا ،اور یہ جو قبضہ ہے پارکنگ لاٹس پر اور اس کے ساتھ ساتھ پلوں کے نیچے پارکنگ اسٹینڈز اور دکانیں بنانے کا معاملہ ہے ،یہ کیا ہے ؟تو کہنے لگے یہ سب کچھ سیاسی حریف ، ان دنوں سیاسی حلیف اور سیاسی شریف بن کر چلائے جارہے ہیں۔ بڑھائے جارہے ہیں ۔ میں نے کہا ، حل کیا ہے ؟ کہنے لگے ،کوئی نہیں کیونکہ جب شہر کی سڑکوں پر صوبے کے حاکم قبضہ کریں اور عدالت واگزار نہ کراسکے ، جب محکموں کے افسر گاڑیوں کا ڈیزل بیچ دیں اور نئی گاڑیوں کے پرزوں کی خریداری سال کے اندر اندر شروع ہوجائے ۔ جب کلفٹن اور کینٹ کے علاقوں میںبھی پیدل چلنے والوں کے لیے بنائے گئے پل اور پل کے نیچے ستونوں میں دکانیں بناکر حکومت ٹھیکے پر دینے لگے ،جب کچرا ابراہیم حیدری میں پانی پر ڈمپ کرکے پلاٹنگ کرکے غریب کا خون پسینہ لوٹ لیا جائے اور ناکے لگا کر کھڑے ہونے والے پلسیوں کی اوقات چائے کے بیس روپے ہوتو بچ گیا روشنیوں کا شہر ۔پھر کوئی ٹمبر مارکیٹ جلے یا کوئی ایدھی لٹے ،لٹنے دو ۔ کیونکہ مہاراج ہری رام ہوں ، حجن اچھی باجی ہوں یا پھر شہر پر اور ٹھیکیداروں کے ساتھ قبضہ کرنے والے ،سب آزاد ہیں ۔ اس لیے سوا دو کروڑ لوگو شاباش تمہاری ہمت کو ۔