ندرت خیال سے ثمربار استاذی ظفر اقبال عہد حاضر کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ وہ علمِ عروض پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اور اشعار کے اوزان، بحور و تقطیع پر اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ اکثر اپنے کالموں میں شعراء کے کلام میں فنی کوتاہیوں کی نشاندہی اور وزن کی صحت کا فریضہ انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ ہم اپنی ایک گستاخانہ سی تحریر ''غالب ؔبنام ظفر اقبال‘‘ کی وساطت سے اپنی دنیا و عاقبت خراب کر چکے ہیں۔ اس تحریر کو جناب ظفرؔ اقبال نے کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کالم کا حصہ بھی بنایا۔ آج ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اس کالم کا مقصد بصد احترام ادب کی ایک خاص صنف پر ان کی مہرباں رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ مراد یہ ہے کہ استاد محترم ہمارے ایک تحقیقی مقالے ''ٹرانسپورٹ کی شاعری‘‘ میں عرض کئے گئے اشعار کی اصلاح اور انہیں وزن کے حساب سے موزوں فرمائیں تو کرم شاہانہ سے بعید نہ ہو گا۔ بغیر ان کا قیمتی وقت ضائع کیے فرازؔ کے ہاں سرقہ بالجبرکی ایک دلیرانہ واردات کے نتیجے میں تخلیق ہو کر ایک ٹرالر کی زینت بننے والا یہ شعر حاضر ہے:
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو ملک فتح خان آف پنڈ دادنخان
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ٹرانسپورٹ کی شاعری کے بارے میں ہم عرض کرتے چلیں کہ یہ ادب کی وہ صنف ہے جو کتابوں میں ملتی ہے، نہ ہی کتابیں ان فن پاروں کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ اس شاعری کا بوجھ صرف سڑکوں پر رواں بسیں، ٹرک، ٹریکٹر ٹرالیاں، ٹینکرز، ویگنیں اور رکشے ہی اٹھا سکتے ہیں، بلکہ کئی اشعار تو ایسے ہیں کہ جن کا وزن بیس، بیس وہیلر ٹرالر ہی سہار سکتے ہیں، جس کی ایک ارفع مثال آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ ایک بس کے پیچھے لکھا گیا اسی قبیل کا ایک اور شعر سنیے، جس میں غالبؔکی روح کے ساتھ کوئی پرانا بدلہ چکایا گیا ہے:
عشق پر زور نہیں ہے ہائے یہ وہ آتش میاں خان
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اب یہ تو استاد ہی بتا سکتے ہیں کہ اس وزنی شعر میں اصلاح کی گنجائش ہے یا نہیں۔ البتہ ہمارا خیال ہے کہ اگر شاعر محترم اپنا پورا تخلص یعنی ''چوہدری میاں خان آف ڈیرہ غازی خان‘‘ بھی لکھ دیتے تو وہ ملک فتح خان کے ہم پلہ شاعر کہلا سکتے تھے۔ مشفق خواجہ نے غالباً اسی ادب کے تخلیق کاروں کے بارے میں کہا ہے کہ اساتذۂ سخن ردیف و قوافی سے فن پاروں کو اس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ ان میں مزید کوئی بار اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی، لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بارِ گراں ہم جیسے ناتوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ آج ہم یہ بارِ گراں استاذی ظفر اقبال کو منتقل کر رہے ہیں۔ ٹرکوں پر تحریر شدہ ایسے دو فن پارے ملاحظہ فرمایئے:
عجیب معصوم لوگ ہیں کالا شاہ کاکو کے
قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا جا رہا ہے؟
دوسرا شعر ہے:
اسے پیار کرنا نہیں آتا، مجھے پیار کے سوا کچھ نہیں آتا
کام دو ہیں، ایک اسے نہیں آتا، ایک مجھے نہیں آتا
یاد رہے کہ ٹرانسپورٹ کا ادب ہرگز ایسا نہیں کہ جب چاہا تکیے سے ٹیک لگائی اور کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دیا۔ ادب کی اس صنف سے ذوق کی تسکین کے لیے قاری کو اثنائے ڈرائیونگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے۔ گاڑیوں کے چاروں اطراف لکھے گئے یہ اشعار پڑھتے ہوئے بیک وقت سڑک پر بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے اور ادبی شہ پاروں پر بھی۔ یوں سمجھیے کہ قاری کو تنی ہوئی رسی پر چلنا ہوتا ہے اور اس کی اس دوہری توجہ کا توازن ذرا سا بھی بگڑ جائے تو شعر ادھورا رہ جاتا ہے یا پھر ٹانگ اور بازو سلامت نہیں رہتے۔ اول الذکر صورت میں ذوق کی تسکین مکمل نہیں ہوتی اور ثانی الذکر حالت میں قاری خود مکمل نہیں رہتا۔ شاید اسی لیے اس کو ''جان توڑ شاری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک کھٹارے پر ڈرائیور نے یہ شعر لکھوا رکھا تھا:
موت کے منہ میں بیٹھ کر خوشیاں منانے والے
حافظ خدا تمہارا بیڈ فورڈ چلانے والے
مشتاق احمد یوسفی فرماتے ہیں کہ شعر میں جس بات پر ہزاروں آدمی مشاعروں میں اچھل اچھل کر داد دیتے ہیں، وہی بات نثر میں کہہ دی جائے تو پولیس بعد کی بات ہے، گھر والے ہی سر پھاڑ دیں۔ اسی قماش کا ایک فُلی لوڈڈ شعر ٹرالر کے شب و روز کی عکاسی کی خاطر اس کے پیچھے لکھا گیا ہے۔
قمیض تینڈی کالی
کبھی لوڈ، کبھی خالی
رکشے پر لکھے گئے ایک فن پارے میں ''اصلاح گر‘‘ نے اپنی تمام تر فہم و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے لفظ جُنوں کی ''ج‘‘ کے نیچے ''زیر‘‘ ڈال کر اسے ''جِنوں‘‘ بنا دیا کہ:
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جِنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
ایک اور رکشوی شعر سُنیئے
جس نے ماں باپ کو ستایا
اس نے آخر رکشہ ہی چلایا
ان شعرائے کرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ پیدائشی یعنی ''جماندرُو دکھی‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کے لا علاج دکھ ان کے اشعار سے بارش کے دوران کچے کوٹھے کی چھت کی مانند ٹپکتے رہتے ہیں۔ اس قماش کے اشعار گاڑیوں پر کچھ اس انداز سے لکھے ہوتے ہیں:
محبت ایک اسٹیشن ہے، زندگی ریل گاڑی ہے
خوشیوں کے ٹکٹ نہیں ملتے، دکھوں کی بکنگ جاری ہے
یا جیسے ایک ٹرالی کے پیچھے ہم نے کمال کا یہ شعر پڑھا:
زندگی ملی تو کیا ملی، ملی بھی تو بے وفا ملی
اتنے میرے گناہ نہ تھے، جتنی مجھے سزا ملی
تاہم ان شاعروں میں چند دانے زندہ دل بھی ہوتے ہیں۔ سیمنٹ کے توڑوں سے اوورلوڈ ٹرالر کے ایسے ہی ایک استاد نے اپنی شکست کا اعتراف یوں ثبت کر رکھا تھا ''شیشے کی دیوار نہ ٹوٹی، سڑکیں توڑنے والوں سے‘‘... ایک اور فنکار کے ہنر کا شاہکار دیکھیے ''چھوڑ غیراں دی غلامی... اساڈی سرداری کر‘‘
نمونے کے طور پر آج اتنا ہی کافی ہے، ورنہ آپ کی دعا سے ہمارے پاس ایسی دلگداز شاعری کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ استاد محترم اتنے بھاری اشعار کو کون سے ترازو میں تولیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ شعروں کی ترکیب بنانے کا ایسا کوئی کلیہ ہو، جس کی مدد سے ان مصرعوں کا وزن کم کیا جا سکتا ہو، جیسے سیمنٹ کے اوورلوڈڈ ٹرالر سے آدھا سیمنٹ اتار کر سڑک کی جان بخشی کرائی جا سکتی ہے... کلیے سے یاد آیا۔ بصد معذرت، ظفر اقبال صاحب گاہے اچھا خاصا ادبی کالم لکھتے ہوئے کوئی سیاسی استعارہ استعمال کرتے ہیں تو تحریرکی چاشنی برقرار نہیں رہتی۔ جیسے اگلے دن انہوں نے لکھا '' ترکیب بناتے وقت فارسی کا کلیہ یہ ہے کہ دوسرے لفظ کا آخری حرف اگر ''ن‘‘ ہو تو وہ ن غنہ میں تبدیل ہو جائے گا، جیسے دیدہء حیراں‘‘... اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ جن کا آخری حرف ''ن‘‘ ہے، انہیں ترکیب بنانے والے ن غنہ میں تبدیل کرتے ہوئے دیدے حیراں کرنے کی کتنی کاوشیں کر رہے ہیں۔ یہ تو سیاسی بات ہوئی ناں۔