"WKC" (space) message & send to 7575

وفاقی دارالحکومت اور ٹاؤن پلاننگ کا فقدان

1959ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے پوٹھوہار ریجن میں منتقل کیا جائے۔ لہٰذا حکومت نے یونانی ٹاؤن پلاننگ فرم M/S CA Daxiadas Associate کو ذمہ داری سونپی کہ وہ نئے دارالحکومت کی جگہ کا تعین کرنے کے لئے غور و فکر کرے اور اس کا ماسٹر پلان تیار کیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (CDA) کا قیام 1961ء میں عمل میں آیا تاکہ وہ شہر کی پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے معاملات دیکھے۔ اس کے دو سال کے بعد 1963ء میں نیا دارالحکومت اسلام آباد پاکستان کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اسلام آباد کا انتظامی کنٹرول 20 سال تک راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے پاس رہا جبکہ 1980ء میں وفاقی دارالحکومت کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔
ماسٹر پلان کے مطابق اسلام آباد میٹروپولیٹن ایریا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا جو سکیٹرول، اسلام آباد پارک اور راولپنڈی سٹی/ کنٹونمنٹ ایریا پر مشتمل تھا‘ جس کی موجودہ آبادی تقریباً 21 لاکھ ہے جو کہ بڑھ کر 2030 ء میں 30 لاکھ ہو جائے گی۔ شہر کی پلاننگ گرڈ آئرن کی طرز (Grid Iron Patterns) پر کی گئی‘ جس میں ہر سیکٹر 2kmx2km کے سائز/ رقبہ پر مشتمل ہے جبکہ کمرشل زون ایک جگہ تجویز کرنے کے بجائے اس کو Linear Pattern پر مین ایونیو کے ساتھ ساتھ South-West کی طرف تجویز کیا گیا تاکہ سیکٹرز کی ڈویلپمنٹ کے ساتھ ساتھ کمرشل ایریا بھی اسی مناسبت سے ڈویلپ ہوتا جائے۔ ماسٹر پلان میں دیا گیا نیشنل پارک 70000 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے‘ جس کو CDA نے ایکوائر (Acquire) کرنا تھا مگر مالی مشکلات کی وجہ سے ابھی تک صرف 12000 ایکڑ رقبہ ایکوائر ہو سکا ہے جبکہ بقایا 58000 ایکڑ رقبہ ابھی تک پرائیویٹ لوگوں کی ملکیت میں ہے‘ جو اس کو اپنی مرضی سے رہائشی، کمرشل اور انڈسٹریل وغیرہ جیسے مقاصد کے لئے بے ہنگم انداز میں بغیر کسی پلاننگ کو مدنظر رکھے ڈویلپ کر رہے ہیں‘ جس نے اس خوبصورت جگہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘ جبکہ ماسٹر پلان میں یہ جگہ مخصوص کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس جگہ کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے راول لیک کے پاس نئی لیک/ ڈیم کو بھی نیشنل پارک ایریا تجویز کیا گیا تھا مگر اس پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا اور جس کی وجہ سے شہر پانی کی کمی جیسی مشکلات کا بھی شکار ہو گیا۔ اس کے علاوہ اس ایریا میں واقع عوامی بہبود اور تفریح کے دو بڑے پروجیکٹس نیشنل میڈیکل سنٹر/ PIMS اور چڑیا گھر کو G 8/3 اور مارگلہ ہل فٹ میں منتقل کر دیا گیا اور یہ رقبہ بھی ڈویلپرز کے ہتھے چڑھ گیا‘ جہاں پر ہاؤسنگ سکیمز اور دوسری منافع بخش تعمیرات ڈویلپ کر دی گئیں۔ 1992ء میں اس ایریا کا Zonation Plan تیار کیا گیا‘ جس کے تحت اسلام آباد کے کل رقبہ 906 مربع کلومیٹر کو پانچ زونز میں تقسیم کر دیا گیا۔ زون ون کو سی ڈی اے کے سیکٹرز ڈویلپ کرنے کے لئے مخصوص کروایا گیا‘ جبکہ زون دو اور پانچ میں پرائیویٹ سیکٹر کو ہاؤسنگ سکیمز اور دوسری ڈویلپمنٹ کی اجازت دے دی گئی اور مارگلہ ہل ایریا زون 3 میں ہر قسم کی ڈویلپمنٹ اور تعمیرات پر پابندی ہے۔ اس کے تحت نیشنل پارک (اسلام آباد) کو زون IV کا نام دے کے یہاں پر مخصوص عوامی مقاصد‘ جیسے پبلک انسٹی ٹیوشن (Public Institution) کی بلڈنگز، قومی سطح کے بڑے پروجیکٹس‘ سپورٹس اور تفریحی سرگرمیوں وغیرہ کی حد تک اجازت دے دی گئی۔ اس کے علاوہ بڑے سائز کے پلاٹوں پر مشتمل Orchard & Farming Scheme کی بھی اجازت دے دی گئی تاکہ رہائش کے ساتھ لوگ اپنے گھروں میں کھیتی باڑی کر کے شہر کی غذائی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکیں۔ یہ سلسلہ ادھر ہی نہیں رُکا اور زون 4 کو 2010ء میں مزید چار سب زونز A,B,C,D میں تقسیم کر دیا گیا‘ اور ان تمام زونز کے Planning Parameters بھی مختلف تھے‘ جن کو وقت اور ضرورت کے تحت تبدیل کیا جاتا رہا اور یہاں پر بھی ہاؤسنگ سکیمز اور دوسری تعمیرات کی اجازت دے دی گئی۔ اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ چونکہ اس علاقے کا کوئی ڈویلپمنٹ، انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک پلان موجود نہ تھا اور نہ ہی بنایا گیا تھا تو اس کی وجہ سے ہاؤسنگ سکیمز اور دوسری تعمیرات بغیر کسی ماسٹر پلاننگ کے بے ہنگم انداز میں بننا شروع ہو گئیں۔ اس عمل نے 70000 ایکڑ پر مشتمل اس زون کو تباہ و برباد کر دیا‘ اور اب بھی یہ ایریا تیزی سے Slums میں تبدیل ہوتا جا رہا‘ جبکہ بڑی بڑی کمرشل اور اپارٹمنٹس بلڈنگز سی ڈی اے کی منظوری اور بغیر کسی بلڈنگ ریگولیشن کے دھڑا دھڑ تعمیر ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے خوبصورت اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ایک بد نما اسلام آباد بھی تیزی سے بن رہا ہے۔ اسلام آباد کا یہ بڑا حصہ پلاننگ اور بلڈنگ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے Slums اور Unplanned ایریا میں تبدیل ہو رہا ہے‘ جہاں پر شہری سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ اس طرح شہر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ جس کی وجہ سے اس زون میں اور سیکٹرول زون میں پراپرٹی کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 
اسی طرح زون 5‘ جس کا بڑا حصہ اسلام آباد کی ایکسپریس وے پر واقع ہے‘ کا بھی کوئی ڈویلپمنٹ پلان نہیں ہے‘ اور اس طرح ڈویلپرز کو بے ہنگم ہاؤسنگ سکیمز اور تعمیرات کی اجازت دے دی گئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بنیادی ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زونز 4 اور 5 کو ہاؤسنگ سکیمز اور دوسری تعمیرات کے لئے اجازت دینا ضروری تھی‘ تو کم از کم اس سے پہلے اس جگہ کا ڈویلپمنٹ پلان ہی تیار کر لیا جاتا تاکہ یہ بے ہنگم ڈویلپمنٹ نہ ہوتی‘ اور اسلام آباد کے سیکٹرول زون کی طرح یہ زونز بھی منظم پلاننگ کے ساتھ ڈویلپ ہوتے‘ جس سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا‘ اور تمام شہری سہولتیں ٹاؤن پلاننگ کے سٹینڈرڈز کے مطابق میسر ہوتیں۔ ابھی وزیر اعظم پاکستان نے اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو ریوائز کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں اور اس سلسلے میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی سفارشات مرتب ہونے میں اور منظوری لینے میں کافی وقت درکار ہو گا‘ اس لئے مناسب ہو گا کہ ان Zones کا ڈویلپمنٹ پلان ہنگامی بنیادوں پر تیار کروایا جائے‘ اور اس دوران ان دونوں زونز میں کسی قسم کی ہاؤسنگ سکیم اور دوسری تعمیرات کی اجازت نہ دی جائے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے بلڈنگز کو فری ہائیٹ دینے کا جو ویژن دیا ہے‘ وہ اسلام آباد میں ان کمرشل پلاٹس پر تو نافذالعمل ہو سکتا ہے‘ جن کو ابھی تک سی ڈی اے نے نیلام نہیں کیا کیونکہ نیلامی کرنے سے قبل پلاٹ پر لاگو بلڈنگ ریلگولیشنز کو مد نظر رکھتے ہوئے نیلامی کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ نیلامی کے بعد ان پلاٹوں پر لاگو بلڈنگ ریگولیشن یعنی فلور ایریا کا تناسب، منزلوں کی تعداد، بلڈنگ ہائیٹ، پارکنگ سٹینڈرڈ وغیرہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ جو کہ Post Bid Change کے زمرے میں آتا ہے‘ جس کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔ بلڈنگز کو فری ہائیٹ دینے سے قبل اس بات کی بھی تسلی کر لینی چاہیے کہ آیا ان بلڈنگز میں کسی بھی نا گہانی آفات کی صورت میں سی ڈی اے کو اس سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل ہے یا نہیں۔ اس وقت میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد CDA/MCI کے پاس صرف 200 فٹ تک کی عمارت کو نا گہانی آفات کی صورت میں سہولیات میسر کرنے کی استطاعت ہے۔ اس کو مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر 700-800 فٹ بلند عمارتوں کی اجازت دینا خطرہ سے خالی نہ ہو گا۔ مزید یہ کہ اسلام آباد زلزلے کی سرخ لائن پر ہے‘ لہٰذا اس حقیقت کو مدِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم بلند مگر محفوظ عمارتیں دیکھ سکیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں