آپ نے کبھی دیکھا کہ مریض کی تیمار داری کوئی یوں کرے کہ بھائی اسے معمولی مسئلہ نہ سمجھیں ۔ کتنا بھی علاج کروالیں کوئی فائدہ نہیں ۔ خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے والی بات ہے ۔ تایا جی کو بالکل ایسا ہی پھوڑا نکلا تھا۔ بڑھتے بڑھتے ناسور ہو گیا اور پورا بازو کاٹنا پڑ گیا۔مگر اس موذی نے جان نہیں چھوڑی ۔اگلے برس پھر ٹانگ پر ویسا ہی پھوڑا نکلا اور ران تک پھیل گیا۔ایسا تعفن کہ اللہ کی پناہ ۔اس بیماری کا کوئی مشکل سا نام ہے ۔ابھی یاد نہیں آ رہا ۔اگلی بار ملنے آؤں گا تو بتا دوں گا۔تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ پھر ان کی ٹانگ بھی کاٹنا پڑ گئی اور وہ بیساکھیوں پر آگئے ۔اولاد آخر کتنا علاج کرواتی ۔ جب بیٹے بالکل کنگال ہوگئے تو انہوں نے بڑے میاں کو بہوؤں کی لگائی بجھائی پر گھر سے نکال دیا ۔ایک دن اس رشتے دار کے ہاں ،تو تین دن فلانے واقف کار کے ہاں ۔بس یونہی بے چارے نے آخری عمر گزاری اور ایک دن محتاجی میں لاوارثوں کی طرح مرگئے ۔ایدھی والوں نے دفنایا۔مگر تم خاطر جمع رکھو ۔گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔اللہ چاہے تو کیا معجزہ نہیں ہوسکتا ۔ممکن ہے تمہاری کچھ زندگی ابھی لکھی ہو۔مگر بھیّا یہ پھوڑا تو کچھ نہ کچھ لے کر ہی ٹلتا ہے ۔ارے ...تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔لو یہ سیب کھاؤ اور دل چھوٹا نہ کرو۔بیماری اور عذاب تو اوپر سے آتا ہے ۔اس آزمائش میں تمہارا کیا دوش ۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیے بھائی کہ اس بیماری کے بہانے گناہ دھل رہے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے ،اگلی بار مریض یا اس کے لواحقین ایسے تیمار دار کی شکل دیکھنا پسند کریں گے ؟
مریض اور بچے کو یکساں توجہ ، نگہداشت ، زود ہضم غذا اور نرم گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے ۔بچوں کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی علامتی سرزنش کے ساتھ بچپنا سمجھ کے درگزر کیا جاتا ہے اور سنگین بیماری میں مبتلا شخص کا بھی مسلسل حوصلہ بڑھایا جاتا ہے ، دلجوئی جاری رہتی ہے اور اس کی توجہ مضرِ صحت خواہشات سے سلیقے کے ساتھ ہٹائی جاتی ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر جاں بلب مریض کے منہ پر یہی کہتا ہے ''آپ بالکل پریشان نہ ہوں ۔ذرا سی تکلیف ہے ۔ جلد ٹھیک ہوجائیں گے ۔ہم آپ کو بھلا چنگا کئے بغیر تھوڑی جانے دیں گے ۔ بس وعدہ کریں کہ صحت یاب ہونے کے بعد بدپرہیزی نہیں کریں گے اور ایک برس تک ہر مہینے چیک اپ کرانا نہیں بھولیں گے ‘‘۔
اہلِ خانہ ، معالج اور عیادت کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مریض کس عذاب سے گزر رہا ہے ،تب بھی وہ علاج اور دلاسے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔مریض سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں ۔ افسردگی ، اور ناامیدی سے نکالنے کے لئے دلچسپ قصے اور لطائف سناتے ہیں۔مریض کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہارٹ اٹیک ؟ ارے اس سے کیا ڈرنا ۔میرے ماموں کو تین ہارٹ اٹیک ہوچکے ہیں ۔دو بائی پاس کروا کے بیٹھے ہیں پھر بھی آپ نے تو دیکھا ہے کہ پچھلے دس برس سے بھلے چنگے خوش و خرم ہیں۔آپ کو تو ابھی پہلا ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔آج کل تو لگ بھگ سبھی کو دل کی چھوٹی موٹی تکلیف ہوجاتی ہے اس سے کیا گھبرانا۔ابھی تو ماشااللہ آپ کو لمبا جینا ہے ۔
ارے کینسر ؟ کینسر تو بھائی آج کل بچوں کا کھیل ہوگیا ہے ۔چچا جان کو نہیں دیکھتے ۔ان کی تشخیص تو بالکل آخری اسٹیج پر ہوئی تھی پھر بھی حوصلہ نہیں ہارا۔کیمو تھراپی ہوئی ، ایک معمولی سا آپریشن ہوا اور دیکھئے پچھلے پندرہ برس سے ٹھیک ٹھاک گھوم پھر رہے ہیں اور پوتے نواسوں کو کھلا رہے ہیں۔تو جانِ جگر بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔وہ دن گئے جب کینسر کا نام سنتے ہی ہر کسی کوغش آجاتا تھا ۔ اب تو ایسے ایسے علاج آ گئے ہیں کہ پوچھو مت ۔اس لئے دل بالکل نہ چھوڑو ۔تمہارا تو ڈاکٹر بھی بہت اچھا ہے ۔دور دور سے مریض آتے ہیں۔سب کو یہی کہتا ہے آدھا علاج میں کروں گا آدھا تم خود کرو ۔یعنی جینے کی تمنا کبھی نہیں چھوڑنا۔اور تم نے دیکھا کہ تمہارے ڈاکٹر کے ہاتھ میں کتنی شفا ہے ۔لو جوس پئیو اور دل سے ایسے ویسے تمام خیالات نکال دو۔زندگی بہت حسین ہے ۔ ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے ۔
عجیب بات ہے کہ جو لوگ اپنے مریض کی آخری سانس تک اتنی دل جوئی کرتے ہیں ،اپنے خونی رشتوں کے ہر اچھے وصف کو ابھارتے اور عیبوں کو نظرانداز کرتے ہیں،جو کسی کی بے بسی نہیں دیکھ سکتے، جو کسی کمزور کو پٹتے دیکھ کر یہ سوال اٹھانے سے نہیں چوکتے کہ اس کا قصور کیا ہے ،جو کسی بھوکے کو بھوکا دیکھتے ہیں تو بھلے مدد نہ کرسکیں مگر اندر ہی اندر ضرور احساسِ جرم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جو ایک ایکڑ کیا ،اپنی ایک فٹ زمین کے لئے لڑ مرتے ہیں ،وہی لوگ جس ملک میں رہتے ہیں اسی کے بارے میں کیسی آسانی سے کہہ دیتے ہیں اس کا تو خدا ہی حافظ ہے ،مجھے تو یہ پنپتا نظر نہیں آرہا۔دراصل یہ ملک بنا ہی غلط تھا۔جیسے پہلے ایک بازو گیا ،اب دوسرا بازو ، ہاتھ ، پاؤں بھی ٹوٹ جائیں گے ۔شرم آتی ہے ایسے ملک کا شہری کہلاتے ہوئے ۔بڑی غلطی کی ہمارے بزرگوں نے ، جانے کیوں یہاں آ گئے ۔کیا ضروری تھا کہ میں بھی یہیں پیدا ہوتا۔اس سے تو اچھا تھا کہیں کانگو وانگو میں جنم لے لیتا۔ویسے اس ملک نے ہمیں دیا کیا۔جو تن پر تھا وہ بھی چھین لیا۔اس کے لئے دعا بھی مانگیں تو کیا مانگیں۔شکر کریں ابھی تک بددعا منہ سے نہیں نکلی ۔یہ ملک جس بیماری میں مبتلا ہے وہ لاعلاج ہے ۔کون سا ہمسایہ ہے جو اس سے تنگ نہیں۔ہر ایک کے پھٹے میں ٹانگ اڑانا اس کی عادت ہے ۔گھر میں نہیں دانے اماں چلیں بھُنانے ۔ ملک کیا ہے اپنے لئے عذاب اور دنیا کے لئے تماشا ہے ۔مجھے تو بالکل حیرت نہ ہوگی اگر کسی دن ساری دنیا مل کے اس پر ٹوٹ پڑے اور تیا پانچا کردے ۔اس ملک نے مہذب دنیا میں اپنے رہنے کے لئے گنجائش ہی کہاں چھوڑی ہے ۔
کیا کبھی ملک کو برا بھلا کہتے کہتے آپ کے ذہن میں آیا کہ میرے بڑے بھائی نے اپنی ماں کو دو تھپڑ مار دئیے ۔قصور بھائی کا نہیں اس گھر کا ہے جس میں یہ موذی رہتا ہے اس لئے باقی بہن بھائی مل کے یہ گھر ہی بیچ ڈالیں تو پاپ کٹے ۔فلانے اسپتال میں سات نوزائیدہ بچے آکسیجن نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہوگئے ۔دراصل یہ اسپتال ہی منحوس ہے لہٰذا اس پر بلڈوزر چلنا چاہئے ۔فلانے اسکول میں ہر سال ستر فیصد بچے فیل ہو جاتے ہیں آؤ اسکول کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ڈھماکی عبادت گاہ کے لاؤڈ اسپیکرز سے مسلسل میرے عقیدے کو چیلنج کیا جاتا ہے ۔خرابی دراصل عبادت گاہ میں ہے ۔ چلو آگ لگا دیتے ہیں۔یہ شہر مظلوموں کے خون سے رنگ چکا ہے ،کتنا اچھا ہو کہ کوئی باہر سے آ کے اس شہرِ ظلم کو ہی مٹا ڈالے ۔
اگر آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی بھی ملک ایک مخصوص رقبے کی چار دیواری سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا ۔جو بھی اچھائی یا برائی ہے اس کے ذمہ دار چار دیواری کے اندر رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔حکومت ، اس کے اداروں اور اپنی بے اعتدالیوں کے کڑے احتساب کی کوشش کے بجائے چار دیواری کو گالی دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔جب ماں بیمار ہوجائے تو آپ اسے بچانے کے لئے زمین آسمان ایک کردیتے ہو اور جب آپ کی دھرتی بیمار ہوجائے تب ؟
ملک نامی چادر کیا ہوتی ہے ؟ پوچھنا ہو تو سفاک آسمان تلے پڑے فلسطینیوں ، کردوں ، روہنگیوں ، افغانوں یا پانچ کروڑ دیگر عالمی بے ملکوں سے پوچھئے ۔تاکہ آپ کو بھی لگ پتہ جائے ۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )