پاکستان اور بھارت کے میرے وہ تمام ہندو اور مسلمان دوست جنہیں اپنی ناک سے آگے کچھ ٹپائی نہیں دیتا۔جن پر پہلے اپنے ملک اور پھر پوری دنیا کو اپنے جیسا کرنے کا خبط سوار ہے ،ان کے لئے بری خبر ہے۔اور بری خبر یہ ہے کہ پچھلے سات ہزار برس میں کوئی بھی سورما برِصغیر کو دین اور دھرم کی تلوار سے پوری طرح فتح نہیں کر سکا اور نہ ہی اگلے سات ہزار برس تک ایسا لگ رہا ہے۔نعرے لگانے ، جوش دلانے ، خنجر لہرانے اور لاشیں گرانے اور پھر ان لاشوں پر اپنی اپنی نظریاتی سیاست چمکانے میں کوئی حرج نہیں مگر جنہوں نے بھی ارتقائی پہیہ اپنی مرضی سے چلانے اور وقت کو اپنی ہتھیلیوں سے روکنے کی کوشش کی ان کی سمادھیاں اور قبریں پشاور سے کنیا کماری اور کچھ سے آسام تک بکھری پڑی ہیں۔
پاکستان میں اپنے اپنے حساب سے دوسرے کا قبلہ درست کرنے کا کام پچھلے اڑسٹھ برس سے ہورہا ہے مگر پاکستانی ہندوؤں اور کرسچینز کو فلاح کی راہ دکھاتے دکھاتے اور باقیوں کو اپنی طرز اور سوچ کا مسلمان کرنے کی کوشش کرتے کرتے خود مسلمان سماج ایک دوسرے کو کافر بنانے کا کارخانہ بنتا جارہا ہے۔کارخانہ تو خیر یہ بہت پرانا ہے لیکن اب اس میں جدید مشینری نصب کردی گئی ہے۔پہلے اس کارخانے میں صرف دلائل اور ردِ دلائل تیار ہوتے تھے اب محض قاتل جیکٹیں ، بارودی دھمکیاں ، فولادی الٹی میٹم اور ہر طرح کی چھوٹی بڑی ، زبانی عملی سفاکی تیار ہوتی ہے۔لیکن پاکستان یہ سب افورڈ کرسکتا ہے کیونکہ اسے نہ تو سپر پاور بننے کا شوق چرایا ہے اور نہ ہی اس میں ابھی اس کی صلاحیت ہے۔
مگر بھارت میں اچانک کچھ لوگوں کے دل میں سب کو ہندو بنانے کی امنگ کیوں جاگ پڑی ہے ؟ بھارت تو اگلے بیس برس میں ترقی کے میدان میں چین کو پچھاڑنے کی سوچ رہا ہے۔اس کا خواب تو یہ ہے کہ دو ہزار پچاس تک اگر دنیا کی پہلی نہیں تو دوسری یا تیسری بڑی طاقت بن کے دکھا دے ،لیکن چوٹی تک پہنچنے کے سپنے میں رنگ بھرنے کے لئے ڈھنگ بھی تو ویسے ہی ہونے چاہئیں۔ ایک ساتھ دو کام کیسے ہوں گے ؟ یا تو پہلے پورے بھارت کو ہندو بنانے کا پروجیکٹ پورا کرلو یا پھر ایک ترقی یافتہ بھارت بنا لو۔
وہ ہندوستان جہاں دنیا کے کونے کونے سے آنے والوں کو کھلے بازوؤں جگہ دینے کی ہزاروں برس پرانی روایت چلی آ رہی تھی۔وہ ہندوستان جہاں آنے کا راستہ تو تھا مگر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا،حتیٰ کہ انگریز کو بھی زبردستی یہاں سے نکالنا پڑا ،وہ بھارت کہاں گیا ؟ ایسا کیوں ہے کہ ایک بڑے ملک کا ذہن مسلسل چھوٹا ہوتا چلا جارہا ہے۔کیا وہاں کے فیصلہ سازوں کو بالکل اندازہ نہیں کہ بڑے ملک کا دل اور ظرف کتنا ہونا چاہیے۔کیا یہ بھی اندازہ نہیں کہ بڑا ملک جو بھی اچھی بری مثالیں قائم کرتا ہے اس کی نقل اس کے چھوٹے پڑوسی بھی کرتے ہیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ الٹا بھارت نے پڑوسیوں کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کردیا ہے۔ان حالات میں مجھ جیسے چھٹ بھئیے لکھاری کیا کریں۔اپنے ہاں کے تنگ نظروں کو روشن خیال بنانے کے لئے جیو اور جینے دو کا فلسفہ کیسے بتائیں ؟
پاکستان میں میرے ایسے سینکڑوں سنکی اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر چار فی صد پاکستانی مسلمان نہیں بھی ہیں تو ان کے ہندو یا کرسچین بنے رہنے سے چھیانوے فیصد مسلمان اکثریت کو آخر کیا اور کتنا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ اسی طرح اگر بھارت کی بیس فی صد آبادی ہندو نہیں بھی ہے تو اس سے اسی فیصد ہندوؤں کو آخر کتنا بقائی خطرہ ہوسکتا ہے۔کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ دوسروں کا دین دھرم سیدھا کرنے سے پہلے اگر اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی قسمت سیدھی کر لیں ؟ اس کے بعد کسی کو قائل کرنے کی شاید ضرورت ہی نہ پڑے۔
ایک بات کہوں ! بھارت اگر بیرونِ ملک پہچانا جاتا ہے تو جوشیلے مہنتوں ، پنڈتوں اور مولویوں سے نہیں بلکہ بالی وڈ کی فلموں سے۔کسی اور سے نہیں تو بالی وڈ سے ہی سیکھ لیں کہ ایک دوسرے کا ایمان ٹھیک کئے بغیر کیسے اپنی مضبوط پہچان بنائی جاتی ہے۔آج اگر قادر خان امیتابھ بچن کو کلمہ پڑھوانے پر جٹ جائیں اور اجے دیوگن شاہ رخ خان سے کہیں کہ سپر سٹار تو تم مہان ہو ،ساتھ میں ہندو بھی ہوجاؤ تو کیسا اچھا ہو۔ پھر تو ہوگیا بالی وڈ بھائی چارے کا کلیان۔
تو کیا بھارت اور پاکستان نے اپنے سارے مسائل حل کرلئے کہ اب کرنے کو کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ جہاں جس کی اکثریت ہو وہ اقلیت کو اپنے جیسا بنانے پر جٹ جائے۔سندھ میں اگر رنکل کماری اغوا کرکے مسلمان کی جا رہی ہے اور آگرہ کے بعد اب علی گڑھ میں اگر پچیس دسمبر کو ایک ہزار مسلمان اور چار ہزار کرسچین خاندانوں کو ہندو کرنے کا ڈرامہ رچانے کا منصوبہ ہے تو پھر متعصب مسلمانوں اور متعصب ہندوؤں میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ ان میں سے ایک کا نام اسلم ہے تو دوسرے کا موہن۔
انتہاپسند ہندو ہوں ، کہ عیسائی ، کہ یہودی ، کہ مسلمان ،سب ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔یہ سب ایک دوسرے کو ایندھن اور حوصلہ فراہم کرتے ہیں تاکہ باقی انسانیت صرف پنجوں کے بل کھڑی رہے اور اسے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور اصل دشمن کون ہے اور کہاں ہے ؟
ہاں اس وقت ہر جانب شور و غوغا ہے۔ہاں کوئی بھی اپنی آواز کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار نہیں۔ہاں سب کے دیدے کھلے ہیں مگر کوئی بھی خود کو کلر بلائنڈ ماننے پر تیار نہیں۔کوئی بھی اپنی پسند کے منظر کے سوا کچھ دیکھنے کو تیار نہیں۔کوئی بھی خود کو عقلِ کل سے کم سمجھنے پر تیار نہیں۔ہر کسی کے پاس بدترین کام کے لئے بہترین دلیلیں وافر ہیں۔تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس شور کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے وہی سب سے طاقتور اور سچا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسے شور مچانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے ؟ طاقت اور سچائی کو خود کو ثابت کرنے کے لئے کیا واقعی واویلا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ؟
لہٰذا یہی بہترین وقت ہے اپنی بات کہنے کا اور یہ جتانے کا کہ تم ہمارے نام پر جو کچھ بھی کررہے ہو ہم اس کا حصہ نہیں۔ناٹ ان آور نیم پلیز...
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )