ایک تو میں سوشل میڈیا سے بہت تنگ آچکا ہوں۔بالخصوص فیس بک پر وہ وہ جہالت اچھل رہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔شروع شروع میں جب فیس بک متعارف ہوئی تو لگا کہ حبس کے ماحول میں بادِ نسیم آگئی ۔ جیسے جیسے ماجھے ، ساجھے ،اچھو، طیفے ، کن کٹے ، شیدے کو پتہ چلا کہ فیس بک پر صرف لائک کا بٹن ہی تو دبانا ہوتا ہے‘ اس کے بعد سے یہ میڈیم دریائے راوی ہو چکا ہے جس میں جوتا بھی چلا آرہا ہے تو جلی ہوئی لکڑی بھی تیر رہی ہے ۔غلاظت کے ٹکڑے بھی ڈبکیاں لگا رہے ہیں تو اگر بتیوں کے پیکٹ بھی بہہ رہے ہیں۔ٹوٹا بھانڈا بھی ابھرتا ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے تو کسی پرانی چارپائی کا سیروا بھی۔ گویا ع
''اک جہل کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے‘‘
اب یہی دیکھئے کہ ان دنوں فیس بک کے ڈرائنگ روم جہادی ایک معروف عالمِ دین کو جاہل آن لائن کا خطاب دیتے ہوئے ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔پیٹیشنوں پر پیٹشنیں لکھ رہے ہیں کہ وہ نفرت پھیلا رہا ہے ۔ماضی میں بھی اس کی نفرت انگیز گفتگو سے متاثر ہو کر کچھ دیوانوں نے ایک مخصوص اقلیت کے پیروکاروں کو قتل کیا اور اب بھی کر رہے ہیں اور کوئی اس آگ اگلنے والے کا گریبان پکڑنے والا نہیں ۔
( میں مخصوص اقلیت کا باقاعدہ نام اس لئے نہیں لے رہا کہ کہیں ان لاکھوں لوگوں کے مذہبی و غیر مذہبی جذبات مجروح نہ ہوجائیں جو بظاہر تنگ نظر اور متعصب نہیں ۔اور عالمِ دین کا نام اس لئے نہیں لے رہا کہ سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے )۔
ایک ایسا عالم جس کی لیاقت کی ایک دنیا قائل ہو اس کے پیچھے بنا سوچے سمجھے لٹھ لے کے پڑ جانا کم ازکم مجھے اچھا نہیں لگا۔ ہمیں ایسے علما کا احترام کرنا چاہئے جنہوں نے نہ صرف کم عمری میں میدانِ تحقیق کی برسوں خاک چھان کر کسی موقر غیر ملکی یونیورسٹی سے علومِ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ اپنے منفرد و دل نشیں انداز میں اس ملک کے کروڑوں ناظرین بالخصوص نوجوانوں کو دردمندی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ اصل اسلام کیا ہے، اور اس اسلام کی جانب لوٹنا کس قدر آسان ہے ۔
جہاں تک رہا یہ الزام کہ عالمِ والا صفات اپنے منڈپ پر بیٹھ کر ملتِ اسلامیہ میں تفرقہ پھیلا رہے ہیں تو اس گھٹیا الزام کے رد میں صرف یہی کہوں گا کہ ذرا بغض کا چشمہ اتار کے علم و فضل کے اس پھوٹتے چشمے تک رسائی کیجئے تاکہ آپ پر میرے خوبرو جواں سال عالمِ لاثانی کی عظمت کھلے ۔کیا یہ بھی مجھے ہی سمجھانا پڑے گا کہ یہ واحد جوانِ جری ہیں جو اس وقت کم ازکم پاکستان کی حد تک اتحادِ بین المسلمین کے لئے تن من دھن سے کوشاں ہیں۔ان کے خصوصی پروگراموں اور ٹرانسمیشنوں کو ہر فرقے کے لوگ دم بخود دیکھتے ہیں اور جنہیں ان پاکیزہ اسٹوڈیائی اجتماعات میں شرکت کی سعادت میسر آجائے وہ نہ صرف خیرو برکت بلکہ چائے کے ڈبے سے کار تک جملہ دنیاوی نعمتیں بلا امتیاز و تعصب سمیٹتے لوٹتے ہیں۔
میرے محترم جواں سال مجاہد کے دل میں کسی کے لئے بھی تعصب نام کی رمق تک نہیں۔ نعتِ رسولِ مقبول ؐایسے خشوع و خضوع سے مترنم پڑھتے ہیں کہ پتھر موم ہوجائے ۔باری تعالیٰ کے حضور دعا کرواتے وقت ایسے اشک بار ہوتے ہیں کہ فضائیں نم ہوجائیں، اور اعصاب پر ایسا قابو کہ دعا کا ٹیک اوکے ہوتے ہی چہرے پر دائمی تبسم لئے کیمرہ مین سے پوچھتے ہیں کیسا؟؟؟
میں نے آج تک کوئی دوسرا عالمِ دین نہیں دیکھا جو سنیوں کے مجمع کو عظمتِ عمر ابنِ خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان کرتے ہوئے دم بخود سحر میں مبتلا کردے اور شیعہ مجمع کے سامنے فضائل اہلِ بیت اور ان پر ہونے والے مظالم کا پردہ یوں چاک کرے کہ مجمع پنجوں کے بل کھڑا ہو کر خداداد لیاقت کو دعائیں دیتا دیتا چھت سے جا لگے ۔ایسا دل نشیں انداز کہ شیعہ سنے تو سنی ہونے کو جی چاہے اور سنی ہو تو شیعت کی جانب من کھنچتا چلا جائے۔ اور جب دشمنانِ اسلام و منافقین کے بارے میں لبوں سے شعلہ صفت پھول گریں تو مجھ جیسے عاصیوں کا بھی دل پکار اٹھے کہ اسی وقت خنجر لے کر ظاہری و باطنی دشمنوں اور آستین کے سانپوں کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ع
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
لہٰذا میں اپنے محبوب عالمِ دین کے خلاف فیس بک جہادیوں کی گھٹیا مہم کی مذمت کرنے پر مجبور ہوں۔سیدھی سیدھی بات ہے کہ جسے کسی کو قتل کرنا ہو وہ قتل کر ہی دیتا ہے ۔اسے اکسانے کے لئے کسی ٹی وی اینکر یا میڈیائی عالمِ دین کی گفتگو سننے کی ضرورت نہیں ۔اسی پاکستان میں لاکھوں لوگ ہیں جو ٹی وی کو شیطان کا کارخانہ سمجھتے ہیں اور صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو اس لعنت سے دور رکھتے ہیں۔ان میں بھی ہزاروں ایسے ہیں جو ٹی وی سیٹ کو ہی سنگسار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔طالبان تو خیر بیس پچیس سال کے اندر سامنے آئے ہیں، میں نے تو انیس سو ستاسی میں پاکستان کے سب سے خواندہ شہر کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں لوگوں کو اپنے اپنے گھروں سے ٹی وی سیٹ لا کر میدان میں جمع کرتے اور آگ لگاتے دیکھا ہے ۔
جہلا کی بات اور ہے مگر ہم جیسے پڑھے لکھوں کو کم ازکم یہ نہیں کہنا چاہئے کہ کوئی ٹی وی اینکر کسی ممتاز قادری کو کسی سلمان تاثیر کے قتل پر اکسا سکتا ہے یا میرے ہیرو عالمِ دین کا کوئی جملہ کسی مخصوص اقلیت کے پیروکاروں کو قتل کروا سکتا ہے ۔جس کی موت جیسے لکھی ہے ویسے ہی آئے گی۔ اس کا ٹی وی چینلز یا ان کی پالیسیوں یا بزنس پلانز سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ماشااللہ تمام چینل مالکان پڑھے لکھے اور مشنری جذبے سے مالا مال ہیں ۔انہیں بخوبی علم ہے کہ کون سے اینکر میں کیا صلاحیت اور کیا خامی ہے ۔کون کتنا مقبول اور کیوں مقبول ہے۔ چینل مالکان بھلا کھلی آنکھوں کیسے مکھی نگل سکتے ہیں (اگر وہ شہد کی مکھی نہ ہو)۔
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
( جون ایلیا )
اسی طرح چینلوں پر پروگرام کرنے والے تمام اینکرز اور علما بھی ماشااللہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ، صاحبانِ علم بلکہ صاحبِ فہم ہیں اور سب سے بڑھ کے سچے پاکستانی اور اچھے مسلمان ہیں ( کیا آپ نے کسی پاکستانی چینل پر کوئی غیر مسلم میزبان اب تک دیکھا ؟ ) ۔
ایسی موقر، ذمہ دار ہستیوں پر اشتعال انگیزی اور گھٹیا گفتگو کا بلا سوچے سمجھے الزام لگانا کسی طور زیب نہیں دیتا۔وہ ازخود اپنے ضابطہِ اخلاق کے رضاکارانہ طور پر پابند ہیں لہٰذا انہیں کسی اجتماعی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا یا ایسا مطالبہ تک کرنا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ چینلوں کی جانب انگلی اٹھانے والے اگر اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں ، آنکھوں پر کھوپے چڑھا لیں اور گریبانوں میں منہ دے لیں اور مسلسل دئیے رکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
( اس وقت جو لوگ ٹی وی اینکروں بالخصوص میرے پسندیدہ جواں سال عالمِ دین کے خلاف گھٹیا مہم چلا رہے ہیں ان میں اکثریت شائد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں پچھلے رمضان میں اس عالمِ بے بدل کی خصوصی ٹرانسمیشن کے پاسز نہیں ملے۔ تو یہ ہے اصل اور اندر کی بات ) ۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )