فنِ حکمرانی ایک پیچیدہ سائنس اور حساس آرٹ ہے۔ حکمرانوں کا فرض ہے کہ تمام شہریوں کے دِل میں ملک سے محبت، قومی اداروں کی عزت اور ذہنی ہم آہنگی فروغ پائے۔ قوم کو ایک لڑی میں پرونا ہی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ جذبِ باہم کو فروغ دینے کے لیے دو عوامل ہمیشہ اہم رہے۔ خطوں کی باہمی تجارت اور قومی کھیل۔ اگر تجارت شہریوں کو ایک معاشی بندھن میں باندھتی ہے تو کھیل افراد کے گرد جذباتی رشتو ں کے تانے بانے سے قوم بناتے ہیں۔کھیل تماشوں کی اہمیت کو حکمرانوں نے بہت پہلے بھانپ لیا۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں دو ہزار سال پرانی کلوزیم کی پرکشش عمارت آج بھی موجود ہے۔ اگر کسی نے سپارٹکس، فال آف دی رومن ایمپائر یا گلیڈ۔ی ایٹر جیسی فلمیں دیکھی ہوں تو وہ اندازہ کر سکتا ہے کہ اُس زمانے کے رومن بادشاہوں نے فنِ حکمرانی میں کھیل کو ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ اُسے کتنی اہمیت دیتے تھے، اُس کا اندازہ ایک مثال سے ہو سکتا ہے۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں تیس ہزار سے زیادہ تماشائیوں کی گنجائش نہیں مگر روم کا کلوزیم جو تقریباً دو ہزار سال پہلے تعمیر ہوا اسی ہزار تک کی تعداد کو سمو سکتا تھا۔
فنِ حکمرانی میں کھیل کی مقبولیت کا مثبت اور مؤثر استعمال اکتیس سال پہلے نیلسن منڈیلا نے سائوتھ افریقہ میںکیا۔ آزادی سے پہلے سفید فام اقلیت، رگبی کے کھیل میں نسلی امتیاز کی پالیسی پر عمل کر رہی تھی۔ سائوتھ افریقہ پر بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی تھی مگر نیلسن منڈیلا نے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی رگبی کی بین الاقوامی تنظیم سے درخواست کی کہ پابندی اُٹھا کر آئندہ ورلڈ کپ کی میزبانی سائوتھ افریقہ کو تفویض کی جائے۔ درخواست قبول ہوئی۔ سائوتھ افریقہ کی جو ٹیم مقابلے کے لیے میدان میں اتری، اُس میں ایک بھی سیاہ فام کھلاڑی شامل نہ تھا۔ پابندی لگنے سے پہلے جب سائوتھ افریقہ میں رگبی کا میچ ہوتا تو سٹیڈیم میں سیاہ فام تماشائیوں کے مخصوص حصے سے کبھی مقامی ٹیم کی حمایت نہ ہوتی۔ سائوتھ افریقہ کی رگبی ٹیم نسل پرستی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اور اس لحاظ سے لوگوں کے لیے قابلِ نفرت۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں سائوتھ افریقہ کا مقابلہ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوا۔ نیلسن منڈیلا نے اُس روز اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جؤا کھیلا۔ جس سفید فام ٹیم کو سیاہ فام اکثریت، نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اُسی کی شرٹ پہن کر سٹیڈیم تشریف لائے۔ سیاہ فام تماشائی حیرت سے نیلسن منڈیلا کو دیکھ رہے تھے۔ جب سائوتھ افریقہ نے میچ جیتا تو نیلسن منڈیلا نے سفید فام ٹیم کے لیے دل کھول کر تالیاں بجائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام سیاہ فام تماشائی بھی اُن کے ساتھ اس خوشی میں شامل ہو گئے۔ سائوتھ افریقہ جسے نیلسن منڈیلا ایک قوسِ قزح کے مختلف رنگوں کا ملک کہتے تھے، اس روز ایک قوم میں تبدیل ہوا۔ اس تاریخی واقعے پر ہالی وڈ میں ایک فلم INVICTUS کے نام سے بنی، جسے ''ایک میچ جس نے ایک قوم تشکیل دی‘‘ کا عنوان دیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کی دُور رس، مدبرانہ سوچ کا حوالہ اس لیے دیا گیا کہ شہریوں کے درمیان اگر کوئی خلیج موجود ہو تو اسے پاٹنے کے لیے مثبت اقدامات بروقت شروع ہوں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام بھی معاشرے میں ایک خلیج پیدا کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ انگریز کے زمانے سے شروع ہوا ۔ سرکاری نظامِ تعلیم، پاٹ شالا ، گوردوارہ یا مدارس کی مذہبی تعلیم کے سلسلے سے علیحدہ رکھا گیا۔ آج بھی ہر مکتبٔہ فکر اپنے اپنے مدارس قائم کرتا ہے ،جن کا عام سکولوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ حصولِ علم کے متوازی نظام اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور اُن کے درمیان کوئی رابطہ یا رسائی کی کوشش نہیں کی گئی۔ سرکار اپنی جگہ خوش ہے کہ مذہبی تعلیم کا نظام اس کے خزانے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔ اِس اطمینان بھرے تساہل کی پالیسی دراصل مجرمانہ غفلت ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ دینی مدارس کے نظامِ تعلیم سے استفادہ حاصل کرنے والے طلباء کی سوچ اور عام سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے خیالات کو ہم آہنگ کرنا ایک قومی ضرورت ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ دینی مدارس کے نوعمر طلباء گرائونڈ کے باہر سے دوسرے لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اُن کے درمیان نہ کوئی بات چیت ہوتی ہے نہ کوئی اور رابطہ۔ گفت و شنید کا فقدان بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ گروہوں میں بٹے نوجوان ایک دوسرے کو اس انداز سے دیکھتے ہیںجیسے وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو۔
بیس سال پہلے راقم نے پنجاب میں سیکرٹری سکول کی ذمہ داری نبھائی۔ اُس وقت بھی مدارس کا نظام سرکار کے عمل دخل سے آزاد ایک علیحدہ جزیرہ تھا۔ مدارس کے طالب علم اپنے مدار میں گھومتے ہیں۔ سرکار نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ انہیں، مدرسوں کے ماحول سے باہر، اپنے ہم عمروں کے ساتھ اختلاط کا موقع ملے۔ کھیل اس رابطے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایک ٹیم میں کھیلتے ہوئے نہ صرف کھلاڑیوں کے درمیان باہمی ربط اور یگانگت کو فروغ ملتا ہے بلکہ مخالف ٹیم سے فاصلے بھی کم ہوتے ہیں۔ مسابقت دشمنی پیدا نہیں کرتی۔ بلکہ غیر محسوس طریقے سے حریف کااحترام جنم لیتا ہے۔ یہ عمل بالآخر ذہنی قربت کا باعث بنتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل نے قومی یکجہتی میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ کھلاڑی کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو، ملک کے تمام شہریوں کا ہیرو بن جاتا ہے۔ کھیل کا درست استعمال کھلاڑیوں میں نظریاتی تفریق کی شدت کو بھی کم کرتا ہے۔ انتہا پسند نظریات کھلی فضا میں نہیں، بند دروازں کے پیچھے پرورش پاتے ہیں۔ کھیل کا میدان، کھلاڑی میں وسعتِ نظر پیدا کر کے اُسے اچھا شہری بناتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ لال مسجد سے جُڑے دینی مدرسے کی کوئی کرکٹ ٹیم ہے یا نہیں۔ اور وہاں اربابِ اختیار کرکٹ کے کھیل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کالم کے عنوان میں کرکٹ ٹیم کی علامت صرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ کھیل کے مثبت اور مؤثر استعمال کو اہلِ نظر تسلیم کرتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے کھیل کے فروغ سے قوم کی تشکیل کی۔ کیا ہمارے حکمرانوں کی دوربین نظر ملک میں بڑھتی ہوئی معاشرتی دراڑ کا ادراک نہیں رکھتی؟ کیا ہماری قیادت میں مدبرانہ سوچ کے حامل سیاست دانوں کی کمی ہے؟ صرف اتنی ضرورت ہے کہ ہم ایک قومی پالیسی کے ذریعے کھیل کی افادیت کو قومی یکجہتی کے لیے استعمال کریں۔ معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اس سے سہل اور مؤثر، کوئی اور طریقہ نہیں۔
کرکٹ کے کھیل نے قومی یکجہتی میں ایک مثبت
کردار ادا کیا ہے۔ کھلاڑی کسی بھی علاقے سے تعلق
رکھتا ہو، ملک کے تمام شہریوں کا ہیرو بن جاتا ہے۔
کھیل کا درست استعمال کھلاڑیوں میں نظریاتی
تفریق کی شدت کو بھی کم کرتا ہے۔ انتہا پسند
نظریات کھلی فضا میں نہیں، بند دروازں کے پیچھے
پرورش پاتے ہیں۔ کھیل کا میدان، کھلاڑی میں
وسعتِ نظر پیدا کر کے اُسے اچھا شہری بناتا ہے