آپ کا لباس آپ کا حق انتخاب ہے!

اس ہفتے کی تین اہم خبریں سنیے۔ کینیڈین حکومت کے ترجمان سکاٹ بدسلے نے اعلان کیا ہے کہ کینیڈین شاہی مونٹڈ پولیس میں شامل وہ خواتین جو اس کی روایتی وردی کے ساتھ حجاب لینا چاہتی ہیں ان کے اس ذاتی حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، آئندہ وہ حجاب لے سکیں گی۔ یاد رہے کہ پولیس کی افسر خواتین جو یونیفارم پہنتی ہیں، وہ اٹھارہ سو عیسوی سے اب تک معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی اسی قدیم روایتی شکل میں ہے‘ جب اس مونٹڈ پولیس کو مغرب کی طرف امریکی وہسکی کے تاجران کی حفاظت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ پولیس سروس میں خواتین افسران کے لباس سے متعلق اس حق کو سویڈن‘ ناروے اور امریکہ کی کچھ ریاستوں میں پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے۔ لندن پولیس نے بھی آج سے دس سال پہلے مسلمان پولیس افسران کے لباس سے متعلق اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے یونیفارم میں حجاب کی منظوری دی تھی۔ کینیڈا میں انیس سو نوے میں سکھ پولیس افسران کے بھی اس حق کو تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ یونیفارم میں تربان لگا سکتے ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد کینیڈین معاشرے میں تنوع پسندی کی اقدار کو فروغ دینا اور مسلمان خواتین افسران کے لئے اس پروفیشن کو پُرکشش بنانا ہے۔ اس اقدام پر کینیڈین معاشرے میں یہ سوال زیربحث ہے کہ آیا تنوع پسندی کی اقدار کے تحفظ کے لئے قدیم ثقافت میں ایسی تبدیلیاں احسن اقدام ہے؟
دوسری خبر فرانس سے ہے جہاں چودہ جولائی دو ہزار سولہ کو دہشت گردی کی ایک سنگین ترین واردات میں چوراسی افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کے صرف بارہ دن کے بعد دوسری کارروائی میں ایک کیتھولک پادری کو ہلاک کیا گیا۔ دونوں واقعات کے بعد فرانس میں مذہبی رجعت پسندی کے خلاف ردعمل آیا۔ فرانس کے پندرہ ٹاؤنز کی انتظامیہ نے تیراکی کے لباس بورکینی کو اپنے ساحلوں پر ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ لباس دہشت گردوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان اتھارٹیز کے اس فیصلے کو فرانس میں انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی این جی او ''ہیومن رائٹس لیگ‘‘ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے مقامی عدالتوں میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ اس سے متعلق ایک واقعہ نے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک 34 سالہ مسلمان خاتون‘ جو تیراکی کے لباس بورکینی میں ساحل سمندر پر بیٹھی ہوئی تھی کہ چار پولیس افسران موقع پر پہنچے اور خاتون کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے لباس کے کچھ حصوں کو عیاں کرے۔ فرانسیسی معاشرے میں اس واقعہ نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ آیا خواتین کو یہ حق انتخاب حاصل نہیں کہ وہ جس لباس کو اپنے لئے مناسب سمجھیں وہ پہنیں؟ کیا کوئی ثقافت لباس کے معاملہ میں اپنی آمریت نافذ کر سکتی ہے؟ مناسب لباس کسے کہتے ہیں؟ بہترین اخلاقیات کیا ہیں؟ اور آیا پولیس افسران کا یہ عمل انسانی حقوق سے متصادم نہیں؟
امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور یورپ کے باقی ممالک میں قومیت کی تعریف میں ایک جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں قومیت تنوع پسندی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ایک قوم میں موجود تمام شناختیں اپنے اظہار کا حق رکھتی ہیں‘ اس لئے وہاں تمام شناختوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اس طرح کی قانون سازی ایک عمومی بات ہے۔ یاد رہے کہ ان ممالک میں رائج تصورِ قومیت ایک سیاسی تصور ہے جس کا ثقافت کی کسی متعین صورت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ چونکہ ایک مخصوص جغرافیہ میں رہنے والے لوگ ایک سیاسی بندوبست پر باہم اتفاق کرتے ہیں جو شخصی آزادیوں مساوات اور انصاف کی ضمانت دیتا ہے، اس لئے وہ ایک قوم ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی‘ فرانس جیسے ممالک میں قومیت کی تعریف کو سیاسی اور سماجی یک جہتی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ ہر وہ شخص جو جرمنی کا شہری ہے‘ وہ جرمن ہے؟ اسے جرمن ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے تاکہ قومیت کا اظہار ہو۔ ان ممالک میں تنوع کو قومی اتحاد سے ایک درجہ کا تصادم سمجھا جاتا ہے جو یقینا قابل تحسین تصور نہیں۔ فرانسیسیوں نے 
دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد یہ قیاس کر لیا ہے کہ ہر وہ شخص جو دہشتگردوں کی ثقافت سے کسی حد تک مناسبت رکھتا ہے وہ دراصل ان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ یوں ثقافتی یک جہتی اور حب الوطنی باہم مشروط ہو گئی ہیں۔ خبر ہے کہ جب اس خاتون کو پولیس ہراساں کر رہی تھی تو کچھ لوگ آوازیں لگا رہے تھے کہ ''اپنے ملک واپس جاؤ اگر تم ہماری ثقافت کو پسند نہیں کرتیں‘‘۔
تیسری خبر یہ ہے کہ فرانس کے اس واقعہ کے بعد بورکینی کی فروخت میں دو سو گنا اضافہ ہو گیا۔ یہ اس خاتون سے یکجہتی کا اظہار ہے۔ پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر موجود انسانی حقوق کے کارکنان نے متاثرہ خاتون کے لباس سے متعلق حق انتخاب کو تسلیم کیا ہے۔ فرانسیسی انتظامیہ کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس فیصلے کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ ایک فرانسیسی خاتون کا ٹویٹر پر یہ بیان بہت مقبول ہوا: ''وہ آج اپنے فرانسیسی ہونے پر شرمندگی محسوس کر رہی ہے‘‘۔
فرانس کے اس واقعہ کے بعد دو سوالات پر بہت زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ ایک ہے لباس کا حق کہ کیا ہر فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جس لباس کو اپنے لئے مناسب سمجھے وہی پہنے۔ کیا لباس کا انتخاب سماجی یا قومی مسئلہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لباس کا تعلق فرد کے حق انتخاب سے جڑا ہوا ہے۔ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس لباس کو بھی پسند کرے وہی پہنے چاہے اس انتخاب کے پس منظر میں جو بھی جذبہ (مذہبی، سیاسی‘ سماجی) کارفرما ہو۔ ایک خاتون اگر اپنے لئے برقعہ پسند کرتی ہے تو یہ اس کا ذاتی حق انتخاب ہے۔ اسی طرح اگر ایک خاتون برقعہ نہیں لینا چاہتی تو یہ بھی اس کا حق انتخاب ہے۔ بورکینی اور بکینی تیراکی کے لباس میں خواتین کا انتخاب ہیں۔ ان کا دائرہ کار خالصتاً ذاتی ہے۔ شخصی آزادیوں کا تصور حق انتخاب سے مشروط ہے جس کے بغیر فرد آزاد نہیں۔ جس طرح شہریت کے تصور میں ہم جمہوریت کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ یہ دراصل تمام شہریوں کا سیاسی زندگی میں حق انتخاب ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت منتخب کریں‘ جو ان کی زندگی میں بہتر سہولیات کی فراہمی کے بنیادی امور سرانجام دے۔ اور سیکولرازم سے مراد یہ ہے کہ ریاست کسی ایک نظریہ یا عقیدہ کا جبر شہری پر نافذ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح تنوع پسندی کی واحد صورت یہی ہے کہ شہری اپنی شناختوں کے اظہار میں آزاد ہیں۔ لبرل ادارے شخصی آزادیوں کے بغیر قائم نہیں ہو سکتے اور شخصی آزادی انفرادیت پسندی یعنی ہر فرد کے حق انتخاب کو فکری و عملی طور پر تسلیم کئے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔ اس صورت میں فرانس کا بورکینی سے متعلق فیصلہ لبرل تصورات سے متصادم ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیمیں فرانسیسی اتھارٹیز کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
دوسرا کثرت سے زیربحث موضوع ''اخلاقیات یا مناسب (Proper) کی آمریت‘‘ کا ہے۔ کیا مناسب ہے اور کیا نہیں‘ اس کا کوئی معیار بھی ہے؟ انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے پہلے جو سبق ہم حاصل کرتے ہیں وہ ارتقاء ہے: کچھ بھی مستقل نہیں‘ نہ روایت‘ نہ ثقافت‘ نہ تعبیرات اور نہ ہی تصورات۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ سماج کا خوراک‘ موسیقی‘کھیل‘ لباس سمیت انگنت چیزوں میں مزاج بدلتا ہے۔ جس چیز نے بدل جانا ہوتا ہے وہ حتمی نہیں ہو سکتی اور جو حتمی نہیں ہوتیں انہیں اخلاقیات یا بہترین کا جواز دے کر ان کی آمریت نافذ نہیں کی جا سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک سماج میں اخلاقیات کے درجنوں تصورات پائے جاتے ہیں، سیکولرازم کی رو سے کسی ایک تصور اخلاق کا نفاذ ان تمام شہریوں پر ظلم و جبر کے مترادف ہے جو اس تصور اخلاق کو قبول نہیں کرتے۔ یہ اخلاقیات کی آمریت ہے جو شہریت کے بنیادی تقاضوں سے انحراف کے مترادف ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ کسی بھی سماج کا حسن اس سماج میں رہنے والے تمام افراد کے درمیان باہمی تعاون اور برداشت میں پایا جاتا ہے۔ ملٹن فریڈمین کیا خوبصورت بات لکھتے ہیں: ''معاشروں کا اصل امتحان یہ نہیں کہ وہ اپنے باشندوں کو فکر و عمل کے تمام پہلوؤں میں تسلیم و رضا کا حق دیتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا وہ اپنے باشندوں کو انکار کا حق بھی دیتے ہیں؟‘‘ انکار کا حق ہی کسی معاشرے کی تنوع پسندی اور انسان دوستی کی اقدار کو جانچنے کا ذریعہ ہے۔
پوری دنیا میں جاری یہ بحث ہم سے بھی بہت زیادہ متعلق ہے۔ ہمارے شہریوں کی ایک بڑی تعداد برقعہ کو رجعت پسندی کا نام دے کر تضحیک کا نشانہ بناتی ہے۔ دوسری طرف شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو خواتین کے لباس سے متعلق حق انتخاب کو فحاشی اور عریانی سے تعبیر کرتی ہے۔ پاکستان میں ہر فرد (کسی بھی جذبہ یا تصور کے تحت) مناسب لباس کا ایک مخصوص تصور رکھتا ہے اور ہر فرد (مرد و عورت) کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس لباس کو اپنے لئے مناسب سمجھے اسے پہنے۔ یہ اس کا ذاتی حق انتخاب ہے جس سے اسے کوئی محروم نہیں کر سکتا‘ سوائے ظلم و جبر کے۔ لباس کو بجائے ایک خوبصورت پہناوا سمجھنے کے کسی تصور اخلاق کا نمائندہ سمجھنا اور اس کی بنیاد پر دوسرے افراد کو تحقیر و نفرت کا نشانہ بنانا کسی طرح سے بھی قابل تحسین عمل نہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی تنوع پسندی کی اقدار کو فروغ دیں اور سماج میں موجود ہر شناخت کو اپنے اظہار کے بھرپور مواقع دیں جیسا کہ ہماری خواہش ہے‘ مغربی ممالک میں ہماری مسلم اور دیسی شناخت کو اظہار کے تمام مواقع حاصل ہوں۔ جس طرح ہمیں اپنی شناخت اور حق انتخاب سے لگاؤ ہے‘ انصاف اور مساوات یہی ہے کہ ہمیں دوسروں کو بھی یہ حق دینا چاہئے کہ وہ اپنے اپنے تصور اخلاق کے مطابق خوشی و خوشحالی سے زندگی بسر کر سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں