تاریخ آئینہ ہے۔ ضروری ہے کہ جب کبھی کسی مفروضہ حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو پہلے اس کا تاریخ کے آئینہ میں عکس دیکھ لیا جائے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری تعلیم کے میدان میں دنیا سے پچاس فیصد پیچھے اور سکینڈری سکول کے میدان میں ساٹھ فیصد پیچھے ہے ۔ اس زبوں حالی کا الزام عموما سرمایہ داری نظام پر لگا دیا جاتا ہے ۔ سرمایہ داری نظام یعنی کیپیٹلزم کا آغاز صنعتی انقلاب سے ہوا ۔ اس نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا اور زرعی اقدار کو پسپا کر کے صنعتی تمدن کی بنیاد رکھی ۔ مارکس بھی سرمایہ اور سرمایہ داری نظام کا آغاز صنعتی انقلاب سے بتاتا ہے اور صنعتی انقلاب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سوائے اس کے زرعی عہد کی انسان دشمن سیاست معیشت اور ثقافت کو تباہ کرنا ممکن نہ تھا۔ اس سوال کو بھی ہم کسی اور وقت میں اٹھائیں گے کہ کیا پاکستان میں سرمایہ داری کی آزاد معیشت پائی بھی جاتی ہے جبکہ اس وقت پاکستان کی پراپرٹی رائٹس میں رینکنگ 113 (بحوالہ انٹرنیشنل پراپرٹی رائٹس الائنس ) اور معاشی آزادی میں رینکنگ 112(بحوالہ Fraser انسٹیٹیوٹ) پر ہے ؟
سرمایہ دارانہ نظام کے معترضین کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے پوری دنیا میں حصول تعلیم کے تمام ذرائع پر کس کی اجارہ داری قائم تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ زرعی عہد میں سکولنگ کا تصور پایا ہی نہیں جاتا تھا۔عام آدمی کے لئے علم کی تحصیل ایک کٹھن ترین کام تھا۔ صرف امراء اور شاہی خاندان کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے کیونکہ علم کی تحصیل کے تمام مواقع اور سہولیات انہیں حاصل تھیں۔ بادشاہ اور امراء کے گھروں میں ہی لائبریریاں ہوتی تھیں اگر مذہبی اداروں میں کتب خانے ہوتے بھی تھے تو ان کا دائرہ کار عموما مذہبی ہوتا تھا۔ سب سے پہلے مغرب میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے جنہوں نے تعلیم کی دنیا میں انقلاب برپا کیا وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہی تھے۔تعلیم کو عام کرنے میں ایک طرف اگر چھاپہ خانے کا کردار ہے جس کی کمرشل پروڈکشن نے مارکیٹ کی ثقافت میں سستی اور وافر تعداد میں کتابیں شائع کر کے عام آدمی تک پہنچائیں تو دوسری طرف مارکیٹ کی معیشت نے نئی قسم کی مہارتوں کی طلب پیدا کی جن کے لئے سکول کالج کی تعلیم اور سپیشلائزیشن کی طلب پیدا ہوئی۔معیشت اور علم کا باقاعدہ تعلق صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہوا ۔
پبلشنگ کی صنعت بھی سرمایہ داری نظام کی بدولت وجود میں آئی پھلی پھولی اور آج تک قائم ہے۔ اسی طرح سکولز کالجز اور یونیورسٹیوں کا وجود بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر مارکیٹ میں ان مہارتوں کی طلب ختم ہو جائے جو تعلیمی اداروں میں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں تو کیا ہو گا؟ پاکستان میں سب سے زیادہ جن شعبہ جات کی طرف طلباء کا رجحان ہوتا ہے وہ سب کے سب پروفیشنل علوم ہیں جن کا حصول تعلیم کے بعد بہترین روزگار سے تعلق ہوتا ہے۔ یہ مارکیٹ ہی ہے جو علوم و فنون کی طلب پیدا کرتی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیمی نظام کی زبوں حالی کا الزام بھی اسی مارکیٹ اور اس کی کمرشل ثقافت پر لگا دیا جاتا ہے جو حقیقت میں تعلیم کے حصول کا سب سے بڑا محرک ہے ۔
معیشت مخصوص مہارتوں کی طلب پیدا کرتی ہے تو طلباء اپنے بہتر مستقبل کی جستجو میں انہی شعبہ جات کو پسند کرتے ہیں جن سے وہ حصول روزگار میں کامیاب ہوں ۔ والدین اپنے بچوں کے بارے میں بہت حساس اور فکرمند ہوتے ہیں کہ انہیں آخر کس شعبہ کی تعلیم دلائی جائے جو انہیں معاشی زندگی میں کامیاب کرے ۔ جب تک پاکستان میں علم اور معاشی ترقی کا باہمی تعلق وجود میں نہیں آتا اس وقت تک حکومت کی شرح خواندگی میں اضافہ اور علوم و فنون میں جدت کی تمام منصوبہ بندیاں ناکام ہیں۔پس ماندہ معیشت و مارکیٹ میں علوم و فنون پرورش نہیں پا سکتے ۔سائنس و ٹیکنالوجی کا بھی صنعتوں سے گہرا تعلق ہے ۔ صنعتی انقلاب سے پہلے ہر سائنسی انکشاف محض کتاب کی سیاہی اور طالب علموں کی یادداشت کی نذر ہو جاتا تھا ۔صنعتی انقلاب کے بعد یہ صنعتیں ہی ہیں جو کسی سائنسی انکشاف کو ٹیکنالوجی میں بدل کر اور اس کی کثیر پیداوار سے اسے عام آدمی کی دسترس میں پہنچا دیتی ہیں ۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر آپ صوتی لہروں کی سائنس تو دریافت کر چکے ہوتے مگر آپ کے لئے صنعتیں اس کی ٹیکنالوجی اور موبائل و ٹیلی فون نہ بناتیں تو ایک عام آدمی کو اس سائنسی انکشاف سے کیا فائدہ پہنچتا ؟
یکساں تعلیم کا نعرہ یقینا دلکش ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کی صورت کیا ہو گی ؟ کیا سرکاری تعلیم کے نام پر ریاست کو نصاب پر اجارہ داری دینا ہی یکساں تعلیم کا تقاضا ہے ؟ ریاست کو تعلیمی نظام خاص طور پر نصاب کے معاملہ میں اجارہ داری نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس صورت میں ریاست اپنے بیانیہ سے معصوم طلباء کا ذہنی استحصال کرتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلباء میں سطحی اور غیر تخلیقی خصوصیات پروان چڑھتی ہیں ۔دوسری طرف ریاست کا بیانیہ عموما سٹیٹس کو کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ریاستی بیانیہ طلباء کو ذہن نشین کرانے کا مطلب شہریوں کی ایسی نسل تیار کرنا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں وہی سوچے جو سٹیٹس کو چاہتی ہے۔ اس طرح معاشرے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ان میں افہام و تفہیم کی کمی کے ساتھ ساتھ مکالمہ کی اخلاقیات کا بھی فقدان پایا جاتا ہے - ہمارے ملک میں شدت پسندی کی ایک بڑی وجہ ہمارا تعلیمی بیانیہ بھی ہے۔ سرکاری نصاب تنقیدی شعور کو پروان نہیں چڑھنے دیتا اور طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشودنما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام میں سرکاری سکولز کی اجارہ داری سے وہی مراد ہے جیسے کوئی کہے کہ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پی ٹی وی ہونا چاہیے اور نجی میڈیا چینلز بند کر دینے چاہئیں۔ جس طرح خبر پر ریاستی اجارہ داری سے شہریوں کی تجزیاتی خوبیوں کا استحصال آسان رہتا ہے ویسے ہی علم کے وسیع میدانوں میں ریاستی اجارہ داری بھی علمی و تحقیقی اور ذہنی و تخلیقی میدانوں کو بنجر کرنے کے مترادف ہے ۔
یقیناً پاکستانی آئین میں تمام شہریوں کے لئے تعلیمی مواقع کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہترین صورت ووچر سسٹم ہے کہ والدین اپنے بچوں کو جن تعلیمی اداروں میں بھی داخل کروائیں حکومت ان کے حق انتخاب کا احترام کرتے ہوئے ان کی فیس ادا کرے۔ پاکستان میں پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن اس سسٹم کی بہترین مثال ہے۔ضروری ہے کہ اس نظام کے تحت آنے والے تعلیمی اداروں کے اس حق کا بھی احترام کیا جائے کہ وہ اپنی تعلیمی مہارتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا نصاب خود ترتیب دے سکیں ۔ لازم ہے کہ سکولز و کالجز پر خرچ کرنے کے بجائے طلباء اور تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ اس سلسلے میں سرکاری سکول بھی قائم رکھے جا سکتے ہیں جہاں ریاست اپنا نصاب ترتیب دے اور پرائیویٹ سکولز بھی موجود رہیں جو اپنے نصاب کی تشکیل میں آزاد ہوں۔ اب یہ والدین کا حق انتخاب ہے کہ وہ اس کا تجزیہ و فیصلہ کریں کہ کون سا تعلیمی ادارہ اور نصاب ان کے بچوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔
تعلیم ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے کیونکہ ایک طرف اگر یہ شہریوں کی ذہنی تربیت کرتا ہے جس کی بدولت عوامی رائے عامہ تشکیل پاتی ہے تو دوسری طرف ایک ملک کی معیشت، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافتی زندگی میں شہریوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا انحصار بھی اس ملک کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔اس سنجیدہ معاملہ کو اجارہ دارانہ نفسیات کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ مقابلہ کی ثقافت میں بہتر کارکردگی کو ہی فروغ ملتا ہے اور ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کی ضرورت بھی تعلیمی اداروں میں مقابلہ کی ثقافت ہے۔ اس وقت پاکستان میں 75 فیصد سکول سرکاری اور پچیس فیصد پرائیویٹ ہیں سرکاری اساتذہ کے بچوں کی اکثریت بھی پرائیویٹ سکولز میں پڑھاتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی پروڈکٹیویٹی اس وقت سرکاری تعلیمی اداروں سے زائد کیوں ہے‘ اس سوال پر غور و فکر کی ضرورت ہے نہ کہ یہ سوچ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مخالفت کی جائے کہ آخر ان کی تخلیقی صلاحیتیں سرکاری تعلیمی اداروں سے بہتر کیوں ہیں ۔