کیا فاٹا مقبوضہ علاقہ ہے ؟

راقم الحروف سے ایک بار ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پاکستانی آئین کو اگر لبرل بنایا جائے تو کون کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ میرا جواب سادہ سا تھا، وہ یہ کہ ہمیں پاکستانی قانون کے بنیادی اصولوں پر اعتماد ہے جو دراصل برطانوی کامن لا سے اخذ کئے گئے ہیں جن میں شخصی آزادی، شہریت کے حقوق میں مساوات اور غیر متعصبانہ انصاف کی ضمانت دی گئی ہے نیز1973 ء میں عوامی نمائندگی کی اساس پر قائم منتخب پارلیمان کی بھرپور توثیق بھی اسے حاصل ہے۔ مگر قانون کی کچھ شقیں ایسی بھی ہیں جن پر ہمیں اختلاف ہے کیونکہ یہ اپنی بنیاد میں متعصبانہ ہیں۔ آئین کا یہ متعصبانہ رویہ ایک بنیادی اصول کے تحت ختم کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ پارلیمان کوئی ایسا قانون پاس نہیں کر سکتی اور انتظامیہ کوئی ایسا حکم نافذ نہیںکر سکتی جو تمام شہریوں پر بغیر کسی مذہبی، لسانی، جغرافیائی، نسلی و صنفی امتیاز کے لاگو نہ ہو۔ ایسا ممکن ہی نہ ہو کہ ایک چیز جو پنجاب میں قانونی ہے وہ سندھ میں غیر قانونی ہو، جو خیبر پختونخوا میں تو جائز ہو مگر فاٹا میں جا کر ناجائز ہو جائے، پنجاب میں بنیادی انسانی حق مانا جائے مگر بلوچستان میں جا کر اسے غداری قرار دے دیا جائے اور جو مرد کے لئے تو جائز ہو مگر عورت کے لئے نہیں۔ ایک جمہوری ریاست میں شہریت کی مساوات سے مراد یہی ہے کہ اس ملک میں تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ان میں کسی ایک کو بھی دوسرے پر حقوق کے باب میں برتری یا کمتری حاصل نہیں۔ جو قانون ایک عام شہری کے لئے ہے چاہے وہ بلوچستان کے ویرانوں میں بھٹک رہا ہے یا جنوبی پنجاب میں تنگ حال ہے یا فاٹا میں خاک و خون کی جنگ میں بے آسرا و بے سہارا اور یا پھر وہ تھر کے ریگستانوں میں پانی و خوراک کی صدائیں لگا رہا ہے، وہی قانون ایوان وزیراعظم میں بیٹھے وزیراعظم ، پریذیڈنٹ ہاؤس میں تشریف فرما صدر مملکت ، جنرل ہیڈ کوارٹر میں چھڑی ہلاتے چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے خادم اعلیٰ کے لئے بھی ہے۔ ان میں کسی کو بھی اس قانون میں نہ کوئی استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی چھوٹ۔
خبر ہے کہ وفاقی وزارت برائے ریاستی امور و سرحدی علاقہ جات نے فاٹا سول سیکرٹریٹ کو احکامات جاری کئے ہیں کہ قبائلی رسم و رواج کو قانونی شکل دینے پر کام شروع کیا جائے۔ یاد رہے کہ چھ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیزکی سربراہی میں جنگ زدہ قبائلی علاقے کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے اپنی تجاویز پیش کر چکی ہے اور ان پر بحث پارلیمان میں جاری ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ نوآبادیاتی دور سے ہی فاٹا پر فرنٹیٔر کرائم ریگولیشن کی شکل میں استبدادی قوانین رائج رہے ہیں جو یہاں پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک قانون کی رو سے اگر کوئی ایک فرد یا افراد کا گروہ کوئی سنگین جرم کرتا ہے تو حکومتی نمائندہ یا پولیٹیکل ایجنٹ اس کی سزا اس کے پورے قبیلے کو دے سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کی ان تجاویز میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جرگہ سسٹم کو قائم رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس تجویزکی توثیق پارلیمان سے ہو جاتی ہے یا حکومت اسے کوئی اور قانونی چھتری فراہم کرتی ہے تو پاکستان میں ایک متوازی عدالتی نظام لاگو ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فاٹا کو قبائلی رواج کے سپرد کیا جا رہا ہے جس کا تحفظ قبائلی جرگہ کرے گا تو یہ حق بلوچستان کے بلوچوں، جنوبی پنجاب کے سرائیکیوں، سندھ کے سندھیوں اور باقی شناختوں کو کیوں نہیں دیا جاتا؟ 
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کسی خطے کے رسم و رواج قانون کے لئے بنیاد بن سکتے ہیں؟ خاص طور پر اس صورتحال میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رواج معاشرے کے کمزور طبقات خاص طور پر خواتین کے خلاف انتہائی متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔ فاٹا کے کچھ علاقوں خاص طور پر لوئر دیر میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا (یاد رہے کہ باقی علاقوں میں بھی ٹرن اوور مایوس کن رہے ) اور اس اقدام پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔ نہیں معلوم کہ کیا ان جماعتوں کی مقامی اور قومی قیادت نے شہریت کی اپنی تعریف میں خواتین کو ووٹنگ کے حق سے نکال دیا ہے کیونکہ میڈیا میں اس خبر کی تشہیر کے بعد بھی انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے؟ اسی طرح فاٹا میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح محض تین فیصد ہے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی رسم و رواج ہیں۔ اگر لوئر دیر میں خواتین کو ووٹنگ کے حق سے محروم کرنا وہاں کے رسم و رواج کی ضرورت ہے تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی خواتین کی قرآن سے شادی اور لڑکیوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھنا وہاں کے رواج کا حصہ ہے، تو کیا ریاست ان علاقوں کے شہریوںکو یہ حق دے گی کہ وہ بھی اپنے رسم و رواج کے مطابق اور اپنی پنچائتوں کے تحت فیصلے کر سکیں؟ اگر نہیں تو محض فاٹا میں کیوں؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ رسم و رواج ایک ساکن چیز نہیں، یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ قوانین بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں رسم و رواج کا چولا پہنا کر بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا ہر صورت میں تحفظ کرے۔ سوم، ایک جمہوری قومی ریاست کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ شہریوں کے مابین حقوق کی مساوات قائم ہو۔ فاٹا میں ایسے قوانین نہیں نافذ ہو سکتے جو بقیہ پاکستان میں رائج نہ ہوں۔ چہارم، فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اسے بقیہ پاکستان سے الگ تھک نہ کیا جائے نہ حقوق کی شکل میں، نہ وسائل کی تفویض کی شکل میں اور نہ ہی کسی اور حوالے سے۔ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اور اس سے کسی بھی طرح کا امتیاز برتنا دراصل اسے مرکزی دھارے سے الگ کرنے کے مترادف ہے۔ پنجم، سب سے اہم بات یہ کہ ان قبائلی علاقوں میں سرداری نظام موجود ہے، یہ قدیم رسم و رواج سردار اور حکومتی اہلکاروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ قبائلی جرگہ پر سرداروں کی اجارہ داری قائم ہوتی ہے، اگر ریاست قبائلی رسم و رواج کو قانونی شکل دیتی ہے تو اس سے سوائے اس کے اورکوئی مراد نہیں کہ ایک طرف شہریوں پر سرداری نظام کا تسلط جدید شکل میں نافذ کیا جائے گا تو دوسری طرف ریاست پسماندگی کو فروغ دینے اور ان علاقوں کو مرکزی دھارے سے باہر رکھنے میں پیش پیش ہو گی۔ششم، ثقافت فرد کا ذاتی حق انتخاب ہے،اس میں کوئی جبر نہیں۔ فرد آزاد ہے کہ وہ اپنے علاقے کے رسم و رواج کی مطلق پابندی کرے یا نہ کرے یا ان میں کچھ کی تو پابندی کرے اور کچھ کی نہیں۔ یہی معاملہ پاکستان کے ہر شہر میں ہے، کراچی کو دیکھ لیں اس میں کوئی ایک متعین طرزکی ثقافت نہیں پائی جاتی جس کی شہری ہر صورت میں پابندی کرتے ہوں بلکہ اس میں شہریوںکی انفرادی پسند و ناپسند نے مجموعی طور ایک خوبصورت ثقافت کو جنم دیا ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا ہے۔ ثقافت اور قانون میں فرق ہے۔ ثقافت کسی رسم یا رواج کی رضاکارانہ اتباع یا اس سے انکار کا نام ہے جبکہ قانون تو ہے ہی سراسر اتباع کا نام۔ قانون میں مجرم کو حق انتخاب نہیں دیا جا سکتا کہ چاہے تو جیل چلا جائے یا اپنے گھر ،مگر ثقافت کے باب میں ریاست کسی فرد کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ کسی رسم و رواج کی ہر صورت میں پابندی کرے ، یہ تو ریاست کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا۔ قانون شہریوںکے حقوق کا تعین کرتا ہے فرائض کا نہیں سوائے ایک فرض کے کہ آپ باقی شہریوں کے حقوق کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اگر رواج کو قانون کا درجہ دے دیا جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ثقافت کا جبر نافذ کر رہے ہیں جو آمریت کی ایک بدترین صورت ہے۔ ہفتم، فاٹا میں ہمیں شدت پسندی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ شدت پسندی کے مسائل کا حل معاشروں کو اوپن کرنے میں ہے تاکہ وہ دنیا سے سیکھیں، ان سے مکالمہ کریں اور ارتقائے زمانہ سے ہم آہنگی اختیار کریں۔ بند معاشروں میں پسماندگی، نفرت اور انتہا پسندی پروان چڑھتی ہے، فاٹا کو الگ تھلگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ وہ ارتقائے زمانہ سے کچھ سیکھیں اور اس میں اپنا مخلص حصہ ڈالیں۔
نو آبادیاتی عہد آج سے 69 سال قبل ہندوستان میں اپنے اختتام کو پہنچا تھا، اسے فاٹا میں بھی اب ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر ہنوز فاٹا پر جابرانہ قوانین نافذ رہتے ہیں تو یہ سوال بار بار اٹھایا جائے گا کہ کیا آپ نے فاٹا کو مقبوضہ علاقہ سمجھ رکھا ہے، کیا یہ آزاد و خود مختار پاکستان کا حصہ نہیں اور یہ کہ یہاں کے شہریوں سے امتیازی سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں