ہمارے پسند یدہ مشاغل میں سے ایک بحث ، مباحثہ ، تبادلہ ٔخیالات اورتجزیے کرنا ہے۔ ہم اِس شوق کی تکمیل کیلئے کسی مناسب اور غیر مناسب موقع کو ضائع نہیں کرتے۔ صرف دو یا دو سے زیادہ احباب کا اکٹھا ہوناہی شرط ہے۔ محفل کی نوعیت بھی اس شوق کے راستے میں حائل نہیں ہوتی۔ خوشی یا غم، دونوںمواقع پر اس شوق کو جوش اور جذبے کے ساتھ پورا کیاکرتے ہیں۔ جنازہ اٹھانے میں ابھی کچھ وقت ہوتا ہے، یا دعا سے پہلے قرآن خوانی جاری ہوتی ہے، ہم ایک طرف بیٹھے ،جو ش و خروش کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور تبصرے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر کسی محفل میں مل جائے تو صحت سے متعلق جو سوالات بھی ذہن میں ہوں،اُن کی اس پر بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اگر کسی ایسے شخص سے ملاقات ہو جائے جس کا تعلق میڈیا یا سیاست سے ہوتو اِسے سنہرا موقع جانتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس سے "اندروالی"خبر حاصل کی جائے۔ پوچھے جانے والے سوال کی شکل اکثر کچھ یوں ہوتی ہے"تہانوں ساریاں خبراں ہندیاں نیں،کجھ دسّو کی ہوریا اے؟ " میرے اعزاء میری معلومات عامہ کے بارے میںکبھی بھی اچھی رائے نہ رکھتے تھے ۔ جب سے میرا تعلق میڈیا کے ساتھ بندھا ہے،یہ تاثّر مزید خراب ہو گیا ہے۔ چند ایک کا خیال تھا کہ اب میں باخبر ہوجائوں گا۔ لیکن اُن کی یہ توقّع بے بنیاد ثابت ہو چکی ہے۔
ہمارے ہاں محافل میں بات صرف دوسرے کا جواب حاصل کرنے کیلئے نہیںکی جاتی۔سوال کا جواب صرف ابتداء ہوتی ہے ایک مفصّل اور مدلّل گفتگو کی جس میں ، موضوع جو بھی ہو، ہم اپنے خیالات موثّر انداز سے بیا ن کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماہرانہ رائے کی شاذ ہی کمی ہوتی ہے۔ موضوع یا شعبہ سے ہماراتعلق ہو یا نہ ہو، ہم ماہرین کے ساتھ برابری کی سطح پر تبادلہ ٔخیالات کرتے پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات بڑی محفلوں میں اکثر ایک دوناخوشگوار واقعات بھی نظر آجاتے ہیں۔ہمارا کوئی عزیز خیالات کے اظہار میں نرمی کو غیر ضروری سمجھتا ہے یا دیگرآراء کیلئے احترام کو محض ایک غیر ضروری تکلّف ۔ چنانچہ ماحول میں گرمی آجاتی ہے جوکئی مرتبہ ناخوشگواری کی حدوںکو چھونے لگتی ہے۔ اس مرحلے پر ہونے والی گفتگو حاضرین کیلئے اچھی تفریح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ایسے مواقع پر امریتا سین کی ایک مشہور کتاب کا عنوان یاد آتا ہے ۔کتاب کے انگریزی عنوان کا قریب ترین اردو ترجمہ"کج بحث انڈین"ہے۔ظاہر ہے یہ کتاب ہمارے بارے میں نہیں ۔
بحث، تجزیے ،تباد لۂ خیالات، تبصرے ہمیں بہت پسند ہیں۔ بہت کم درویش منش بزرگ اس معاملے میں عدم دلچسپی اور لا تعلّقی کے بلند مقام پر پائے جاتے ہیں۔وہ دوسروں کے مابین گفتگو کے دوران اکثر ایک مبہم مسکراہٹ لئے خاموش دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کامفہوم یہ سمجھ آتا ہے کہ ہم نے، اپنے دور میں، بہت سی ایسی جنگوں میں کامیابی کے ساتھ شرکت کی ہے لیکن اب اس حقیقت تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ تمام بحث اور تجزیے بے کار ہیں۔ان سے کچھ حاصل نہیں۔ انہیں خاموش ، اور ان کی مسکراہٹ کودیکھ کرگفتگو میں انہیں شامل کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ صرف چند ہی بزرگ اُس بلندی پرپہنچ پائے ہیں کہ وہ کوشش کے باوجود زیرِ بحث معاملے میں شرکت سے گریز کریں ۔اکثر بزرگ ہچکچاہٹ کے مختصر مظاہرے کے بعد، بظاہربادلِ نخواستہ ،تبادلئہ خیالات میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرا تعلق دوسری قسم کے بزرگوں سے ہے۔میں اس شغل میں شامل ہوجانے والوں میں سے ہوں۔ صرف مناسب دعوت کا انتظار کرتا ہوں۔
ایک سوال جو اکثر میرے جیسے کہنہ سال شخص سے بالخصوص پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ"آپ اتنا عرصہ حکومت میں بھی رہے ہیں۔ یہ بتائیں کہ حالات کبھی ٹھیک ہوں گے ؟ کیسے ہوں گے؟"میں اور میرے جیسے کئی حضرات ایسے مواقع پر یہ وضاحت کرناضروری نہیں سمجھتے کہ سرکاری ملازمت میں رہنے کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہوتا کہ حکومت کے جملہ اہم معاملات ہمارے ہی دیکھنے،سننے میں رہے ہوں۔ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ہم یہ وضاحت ضرورکر دیا کریں۔ لیکن اکثر ایسانہیں کیا جاتا کیونکہ اس اعتراف سے ایک تو سننے والے کچھ مایوس ہو جاتے، کچھ سمجھتے ہیں کہ آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہے ہیں اورباقی یہ سمجھتے ہیں کہ جواب نہیں دینا چاہتے ۔ ویسے بھی اس وضاحت سے انسان اپنی ساکھ خود کم کر دیتا ہے۔
مجھے جب ایسا سوال کیا جاتا ہے،اور میرے لئے جواب سے اجتناب ممکن نہیں ہوتایا میں خود گفتگو میں شریک ہونا چاہتا ہوں، تو میں اس کے جواب میں ایک اورسوال داغ دیتا ہوں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ جس بہتری کے آنے یا نہ آنے کے بارے میں پریشان ہو رہے ہیں،مجھے پہلے یہ بتائیں کہ اس بہتری کے آنے میں کس کو دلچسپی ہے؟ وہ اس بہتری کیلئے کیا کر سکتا ہے اور کیا کر رہا ہے؟ میرے اس سوال سے سامعین پر سنجیدگی سی چھا جاتی ہے اور ماحول میرے مزید سوال پوچھنے کیلئے سازگار ہو جاتا ہے۔میں تمہید باندھتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلہ پرصرف ایک لمحے کیلئے سوچنا چھوڑدیں ۔ بھارت، افغانستان، ایران کے ساتھ تعلّقات کے بارے میںبھی ایک لمحے کیلئے پریشان نہ ہوں ۔ ہمارے معاشی ، دفاعی ، جغرافیائی ، تجارتی ، سیاسی مسائل کے بارے میں ہیجانی کیفیت کو بھی صرف ایک لمحے کیلئے ایک طرف رکھ دیں۔اب آئیے ایک گلی ، محلے، گائوں، اپنی روزمرّہ زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ ہمارے پرائمری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ اور تعلیمی معیارشرمناک کیوں ہیں؟ ہماری بنیادی صحت کا نظام اتنا غیر فعال کیوں ہے کہ صحت سے متعلق ہمارے قومی شماریات دنیا بھر میں شرمناک ہیں؟ ہمیں پینے کا صاف پانی کیوں دستیاب نہیں ہے؟ کیا اچھی تعلیم ، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولتوں کی فراہمی اتنی ہی مشکل یا نا ممکن ہے جتنے وہ پہاڑ جیسے مذکورہ مسائل جن پر تبصرے اور رائے زنی کرتے ہم تھکتے نہیں؟ دنیاکے بیسیوں ممالک میں تعلیم اور صحت وغیرہ کا نظام ہم سے اتنا بہتر ہے کہ موازنہ بھی ممکن نہیں۔ ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کے ساتھ موازنہ سے ہمارا قومی وقار مجروح ہو جاتا ہے۔قومی وقار تو صرف مضبوط بنیادوں پر تعمیر ہونا چاہیے، ریت پر نہیں۔ غربت اور وسائل کی کمی کا ذکراس لیے نہ کیجئے کہ ہر سال جتنی رقوم صحت اور تعلیم وغیرہ کیلئے بجٹ میں رکھی جاتی ہیں اُن میں سے بہت بڑی رقوم ،ہر سال استعمال ہی نہیں ہو پاتیں۔ لہٰذا وسائل کی کمی یا غربت کا رونا رونا غلط ہے۔ یاد رکھیں ایسے اخراجات بھی ہیں جو ہر سال ہم تخمینوں سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
میرے اس تبصرے سے تبادلۂ خیالات میں نہ صرف جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے بلکہ دکھ کی بات یہ ہے حاضرین کے چہروں پر عدم دلچسپی نظر آنے لگتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری بات ادھوری رہ جا ئے گی اس لیے میں جلدی سے اپنے جواب کا خلاصہ بیان کردیتا ہوں: ہمارے حالات ٹھیک بالکل نہیں ہونگے کیونکہ، ویسے تو ذمّہ داری کسی نہ کسی شکل میں ہم سب کی ہی ہے ،لیکن جن کے پاس اختیاراور وسائل ہیں ، اور جن کی یہ اخلاقی اور آئینی ذمّہ داری بھی ہے، اُن کیلئے اچھی تعلیم ، حفظانِ صحت کا نظام ،پینے کا صاف پانی، وغیرہ وغیرہ ترجیحات قطعاًنہیں ہیں۔ اقوامِ عالم نے مذکورہ شعبوں میں بہتری کے ذریعے کئی مرتبہ نئی صبحیں تخلیق کی ہیں۔ہماری طرح صرف باتیں نہیں کیں اور وہ بھی صرف جھوٹ۔
گفتگو اور ماحول دونوں ہی بے مزہ، بلکہ بدمزہ، ہو جاتے ہیںجب آپ کسی غلط شخص کو ان میں شامل کر لیتے ہیں۔