مورخہ 9جون کو ہمارے ایک انگریزی قومی اخبار نے نمایاں طور پر یہ خبر دی کہ پنجاب میں ابتدائی تعلیم کے شعبہ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپسPublic Private Parnterships))، جنہیں اختصار سے "پی پی پی" کہا جاتا ہے، کے فروغ کیلئے دوموجودہ صوبائی اداروں کو ضم کر کے ایک نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔ میں نے اپنی ایک گزشتہ تحریر میں بنیادی صحت کے شعبہ میں اسی قسم کے فیصلے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ،نہایت احترام کے ساتھ ،یہ عرض کیا تھا کہ اس اقدام سے وہ بہتری نہیں آئے گی جس کی توقّع میں یہ کیے جا رہے تھے۔ آج میں پھر اُسی نوعیت کی پیشین گوئی کرتا ہوں۔پہلی مرتبہ میں نے اس بد فالی کی وضاحت نہیں کی تھی اور نہ ہی بعد میں کسی نے وجہ جاننے میں دلچسپی ظاہر کی ۔ ہو سکتا ہے کہ قارئین سمجھے ہوں کہ میں علمِ نجوم میں مہارت کا دعویٰ رکھتا ہوں ۔لیکن بات یوں نہیں۔ آج میں گزشتہ دعویٰ کی وضاحت کی کوشش کروں گااور اس سے آج کئے جانے والے دعوے کی بھی انشا ء اﷲ وضاحت ہو جائے گی۔
مجھے 2001ء کی ابتداء سے 2016ء کے وسط تک ایک نہیں ایسی بیسیوں نام نہاد"پارٹنر شپس "کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملاہے جیسی حکومتِ پنجاب تخلیق کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اس معاملہ میں میرا تجربہ میرا اپنا ہے ، بلاواسطہ ہے اور طویل ہے ۔ میں اس 16سالہ تجربے اور مشاہدے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اِسی کی بنیاد پر میری ایک رائے ہے۔ جب تک کوئی نیا نتیجہ میرے سامنے نہیں آجاتا جسے دیکھ کرمجھے رائے بدلنا درست نظر آئے، اُس وقت تک میں اپنی موجودہ رائے پرانشاء اﷲ قائم ہوں۔
جو بات میں کہنا چاہتا ہوںوہ میرے خیال میں نہا یت ساد ہ اورقابلِ فہم ہے۔جن اداروں پر، چاہے وہ نیم سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے اُن سے اُس کارکردگی کی توقّع مشکل ہے جوہمارے کاغذات میں درج کی گئی ہو۔سرکاری کنٹرول سے میری مراد کیاہے؟ اس کنٹرول کی تعریف نہا یت سادہ ہے۔ اگر ایک ادارے کی کلیدی آسامیوں مثلاًبورڈ کے اراکین، سی ای او وغیرہ کی تقررّی میں حکومت کا دخل ہو یا اُس ادارے کے مالی وسائل حکومت کی صوابدید پر منحصر ہوں تو سمجھ لیں وہ حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ ایسا ادارہ خود مختار نہیں ہو سکتا۔ایسے ادارے سے صرف اُس کارکردگی کی توقّع رکھنا جائز ہے جو حکومت کے دیگر اداروں میں ہمارے مشاہدے میں ہے۔ نام کچھ بھی رکھ لیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ صرف دو خواص اہم ہیں ۔ ادارہ کس حد تک خود مختار ہے اور کس کس نوع کی اہلیت رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں پی پی پی نوعیت کے انتظامات اس لیے کیے جاتے ہیں کہ سکول، کالج، ڈسپنسری ، ہسپتال ،پینے کے پانی یا بجلی ، گیس سپلائی جیسے ان گنت کام حکومت کیلئے براہِ راست کرنا ممکن نہیں ہوتے۔ چنانچہ خود کرنے کی بجائے، یہ کام حکومتیں غیر سرکاری اداروں کے ذریعے کرواتی ہیں۔ پاکستان میں یہ احساس تو مکمل طور پر موجود ہے کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو حکومت کے بس میں نہیںہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس احساس کے باوجود حکومت وہ نہیں کرتی جو منظقی طور پراسے کرنا چاہیے۔ ناکامی تسلیم کر لینے کے بعد بھی حکومت یہ کام کسی ایسے ادارے سے کروانے پر بضد ہے جسے وہ کنٹرول کر تی ہے اورپھر توقّع کرتی ہے کہ اس سے بہترین نتائج حاصل ہونگے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ صرف کہہ دینے سے ادارہ غیر سرکاری،خودمختار اور با صلاحیت نہیں ہو جاتا۔ہمارے کئے دھرے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ ہم ایک کے بعد دوسرا ادارہ تخلیق کرتے ہیں ۔ انہیں طرح طرح کے نام دیتے ہیں ، نئے نئے دفتر بنتے ہیں۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔یہ سب حکومت کی ہی دوسری شکلیںہیں ۔ دنیا بھر نے یہ سبق سیکھا ہے کہ حکومت کا سایہ صرف کام کے ماحول کو ممد و معاون رکھنے کیلئے ہونا چاہیے۔ اس طرح انتظام اچھا چلتا ہے۔ ورنہ یہ ادارے ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسے پاکستان میں ریاست کے ملکیتی ادارے ( State Owned Enterprises) مثلاً پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، بجلی بنانے کی کئی کمپنیاں وغیرہ جو ہر سال ناقص کارکردگی کے علاوہ معیشت کا کئی سو ارب کا خسارہ بھی کرتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فہرست میں کئی بنک بھی شامل ہیں جو انتہائی منافع بخش ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ان کی ملکیت میں حکومت کا حصّہ اقلیتی ہے۔ اس وجہ سے کنٹرول حکومت کے پاس نہیں ۔ اسی وجہ سے ان کی کارکردگی میں زمین اور آسمان کا فرق پڑ گیا ہے۔
بیسیوں ممالک میں ہر شعبہ میںپی پی پی کی کامیاب مثالیں نظر آتی ہیں۔کامیابی کے خدوخال کو اگر قریب سے دیکھیں گے توایک ہی جیسے پائیں گے۔ حکومت کا سایہ صرف اعانت اورصحیح اور اچھے کام میںرکاوٹیں دور کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔ ادارے مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ذمّہ دار بھی ہوتے ہیں، با اختیار بھی ، جواب دہ بھی ۔ ہمارے ہاں یہ تینوں رنگ تصویر میں نظر نہیں آتے۔ جب تک یہ صورت تبدیل نہیں ہوگی حکومت کی کارکردگی عوامی اہمیت کے شعبوں میں ناقص ہی رہے گی ۔ دو اور دو جمع کریں ،اور اس عمل کو ایک ہزار مرتبہ دُہرائیں ،تب بھی دو اور دو چار ہی ہوگا۔یہی معاملہ یہاں ہے۔ ہمارے ہاں فیصلہ کرنے والے اور مشورہ دینے والے دونوںدنیا کے تجربے سے بے خبرمعلوم ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ پی پی پی انتظام کہاں کامیاب ہے اور کہاں ناکام۔ اس کی وجہیں کیا ہیں۔اس موقعہ پر میکائولی ،جو ایک اطالوی مفکّرتھا،ذہن میں آتا ہے۔ اُس کی معروف کتاب "دی پرنس"میں درج اصول عوامی معاملات اور سیاست سے تعلّق رکھنے والے افرادمیں بڑے مقبول ہیں ،اگرچہ وہ انہیں پلّے نہیں باندھتے۔ میرے ایک بزرگ نے ایک گفتگو کے دوران میکائولی کا یہ کہا یاد دلایا کہ جو حکمران خود دانا نہیں ہوتا اسے دانائی کے مشورے کبھی نہیں ملتے۔ اس اصول سے میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ دانا حکمران کوغیر دانا مشورہ نہیں دیا جا سکتا ۔
میں اپنی رائے اس قدر اصرار سے کیوں بیان کر رہا ہوں ؟ اس کی دو بہت بڑی وجہیں ہیں۔ ایک تویہ کہ حکومت کے غلط فیصلے سے پبلک فنڈز کا نقصان ہو تا ہے۔ اگر فیصلہ کرنے والوں کے ذاتی وسائل کا معاملہ ہوتا تو میں کہتا کہ انہیں یہ حق ہے کہ وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کریں۔ لیکن جن فیصلو ں کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے ان کی وجہ سے پہلے بھی عوامی وسائل ضائع ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ۔اور میرایہ ایمان ہے کہ عوامی وسائل کے دانستہ ضیاع کا حق حکومت کو حاصل نہیںہے۔ اور یہ ضیاع اس لیے دانستہ ہے کیونکہ کامیاب انتظام سے متعلقہ مواد آسانی سے ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے۔ میرے اصرار کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرحکومت کا فیصلہ غلط ہوا اور اس سے وہ نتائج حاصل نہ ہوئے جن کی توقّع میں یہ انتظامات کئے جارہے ہیں ، تو اﷲکی کثیرالتعداد مخلوق پہلے کی طرح بدستور محروم رہے گی۔
لہٰذا ذراتو قف اور میری گزارش پر غور فرمائیں ۔ جب تک حکومت کی دی ہوئی ذمّہ داری مثلاًسرکاری سکول، کالج، ڈسپنسری، ہسپتال ، پانی سپلائی وغیرہ وغیرہ کی ادائیگی میں ادارے مکمل طور پرغیر سرکاری اور خود مختار نہیں ہوں گے، جب تک ان اداروں میں مکمل اختیار ایسے غیر سرکاری افراد کے پاس نہیں ہوگا جن کا چنائو حکومت کے دائرہ کا رسے باہر ایک شفاف طریقہ کار کے ذریعے نہیں ہوگا، اُس وقت تک پی پی پی کے انتظامات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے اگرایک بات یادرکھ سکیں تو بہت فائدہ ہوگا۔ یاد رکھیں آپ کووہ نظر نہیں آتا جو باہر بیٹھے ہوئوں کو نظر آتا ہے اور باہر سے یہ نظر آتا ہے کہ عام آدمی کیلئے بڑے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ خود حکومت ہے۔ حکومت مسئلوں کا حل نہیں ،مسئلوں کاسبب ہے۔