عوامی اہمیت کی چند خبریں قابل توجہ ہیں۔ یہ خبریں پنجاب میں بنیادی صحت سے متعلق ہیں۔ ان میں سے پہلی خبرایک ترک وفد کی لاہورمیں آمدکے بارے میں ہے جو ایک ایسے معاہدے کے سلسلے میں آیا ہواتھا جس کے ذریعے پنجاب میں بنیادی صحت کے نظام میں انشاء اﷲ انقلابی بہتری متوقع ہے۔دوسری اہم خبر یہ ہے کہ حکومت نے ایک" سرکاری کمپنی" تشکیل دی ہے جو جلد ہی دیہات میں مراکزِ صحت (BHUs/RHCs)کا انتظام سنبھال لے گی ۔ اِس اقدام سے بھی دیہات میں طبّی سہولیات میں بہت بڑی بہتری متوقّع ہے۔یہ خبر بھی ملی ہے کہ بہت جلد مراکز ِ صحت کے لئے الٹراسائونڈ مشینیں خریدی جائیں گی ۔ حکومت اپنی آئینی مدّت کے آخری سال میں داخل ہو چکی ہے۔ بنیادی صحت کی اہمیت کایہ ایک بڑا ثبوت ہے کہ آخری ایّام میں بھی حکومت اس شعبہ کے بارے میں پریشان ہے۔ کچھ وضاحتیں یہاں ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں ، حفظانِ صحت کے اداروں، پانی و بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو دنیا کے بہت سے قابلِ ذکر ممالک میں غیر سرکاری اداروں کے ذریعے چلا یاجا رہا ہے۔ ان ممالک میں ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک دونوں شامل ہیں۔انتظام کے اس طریقِ کار کے بارے میں دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اِن میں سے اکثر تحریریں نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ دنیا نے اس انتظامی ماڈل سے بہت استفادہ کیا ہے کیونکہ غیر سرکاری اداروں کا انتظام عام طور پر حکومت سے بہت بہتر اور مستعدپایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی دیہی مراکز ِ صحت کا انتظام غیر سرکاری اداروں کے سپرد کیا گیا تھا ۔ اس کی ابتداء 2003ء میں پنجاب سے ہی ہوئی تھی۔ پنجاب میںمحسوس کیا گیا کہ اس انتظامی تجربہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ میری نظر میں شائیدآئندہ بھی نہیں ہوں گے۔ تاہم اِس نقطہء نظر کے بارے میں تفصیلی بات پھر کسی موقع پر ہو گی۔اہم بات یہ ہے کہ انتظام کے اس طریقِ کار کے بارے میں دو یاشاید اِس سے بھی زیادہ آراء ہوسکتی ہیں لیکن ان آراء پر بحث ہونی چاہیے۔صرف اسی طرح ہر نقطہ نظر کے اچھے برے اوصاف کا مکمل احاطہ ہو سکے گا اور ہم بہترین نتیجہ پر پہنچ پائیں گے۔ شاید ہمارے ہاں فیصلے مکمل تجزیے سے پہلے کر لئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس انتظامی ماڈل سے متعلق چند حقائق قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ پنجاب میں حکومت ایک غیر سرکاری ادارے کے انتظام کو منسوخ کرکے یہ ذمّہ داری آئندہ ایک نئی" سرکاری کمپنی "کے سپرد کر رہی ہے۔کچھ اسی طرح کا معاملہ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں بھی ہواہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں متعلّقہ غیر سرکاری ادارے نے بوجوہ اِس انتظامی ذمّہ داری کوآئندہ جاری رکھنے سے معذرت کی تھی۔سنا ہے کہ یہ ذمّہ داری اُس کے لیے بوجھ بن گئی تھی۔ حکومتِ خیبر پختونخوا کی تمام ترخواہش اور کوشش کے باوجود متعلّقہ ادارہ ذمّہ داری جاری رکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی بنیادی مراکزِصحت کا انتظام انہی سطور پر غیر سرکاری اداروں کے ذمّے ہے۔لیکن سنتے ہیں کہ وہاںکوئی بہت بڑی قابلِ ذکر بہتری نظر نہیں آئی۔یقینا اس کی وجوہ معلوم کرنی چاہئیں ۔ بلوچستان میں تمام 32اضلاع کے 640بنیادی مراکزِ صحت بھی ایک غیر سرکاری ادارہ چلا رہا ہے۔سنا ہے کہ حکومت اور لوگ اس نظام میں بالعموم بہتری محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اور دیگر عملہ کی موجودگی پہلے سے بہت بہتر ہے اور ادویہ بھی باقاعدگی سے ملتی ہیں جہاں پہلے قلّت رہا کرتی تھی۔ یقینا کارکردگی اِس سے بہتربھی ہو سکتی تھی۔ایسا کیوں نہیں ہوا؟اس کی وجوہ جاننے کی کوشش بھی ہونی چاہیے۔ صوبہ سندھ اس ضمن میں منفردہے۔ وہاں یہ انتظامی ذمّہ داری ایک غیر سرکاری ادارے کو 2007ء کے اوائل میں دی گئی تھی۔ اس وقت یہ غیر سرکاری
انتظامیہ سندھ کے 24میں سے 22اضلاع میں 1140 مراکز ِصحت چلا رہی ہے۔ بہتری کی مزید گنجائش تو ہمیشہ ہی رہتی ہے اور اس کا بھر پور تعاقب بھی ہمہ وقت جاری رہنا چاہیے۔ لیکن سندھ میں جوانقلابی بہتری آچکی ہے اس کا تذکرہ ضروری ہے۔وہاں بہتری کی وجوہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے کیونکہ صرف اسی طرح دوسرے صوبے اپنے ہاں کارکردگی کو بہتر بنا سکیں گے۔ آخر اگر سندھ میں یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بقیہ پاکستان میں بھی یہی کچھ یا اس سے بھی زیادہ استفادہ حاصل نہ کیا جا سکے۔
سند ھ میں اس شعبہ میں جوتبد یلیاں آئی ہیں وہ ایک انقلاب سے کم نہیں ۔ اس وقت اس نظام کے تحت چلنے والے 1140مراکز میں 928 مرد ڈاکٹر زاور463 خاتون ڈاکٹر ز مامور ہیں ۔ جی ہاںلیڈی ڈاکٹرزبھی ۔ پاکستان بھر میں کہیں بھی اس طرح کی سہولت دیہات میں رہنے والے محروم عوام کو میسّر نہیں ہے۔یہ افسوسناک ہے اور تفصیل طلب بھی۔ خواتین کی تعداد آبادی میں عام طور پر تقریباًنصف ہوتی ہے۔ طبّی معاملات میںوہ اکثر مرد ڈاکٹرز سے مدد بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ دوسری طرف سرکاری عدم توجہی ملاحظہ کریں۔ مردوں کے لیے حکومت مرد ڈاکٹر تقریباً10یا 11ہزار کی آبادی پر مامور کرتی ہے یعنی ایکBHUمیں۔ لیکن دیہات میں رہنے والی خواتین کے قریب ترین سرکاری لیڈی ڈاکٹر دیہی مرکز ِ صحت (RHC)میں دستیاب ہوتی ہے اگریہ پوسٹ خالی نہ ہو جو کہ اکثر ہوتی ہے۔ یہ مرکز تقریباًایک لاکھ کی آبادی کے لیے بنایا جاتا ہے ۔ یعنی تقریباً50ہزار خواتین کے لیے ہماری حکومت ایک لیڈی ڈاکٹر مامور کرتی ہے۔ یہ بھی یاد ر ہے کہ خواتین کی اس تعداد کی رہائش عام طور پردس پندرہ مواضعات ، یعنی ایک وسیع علاقہ میںہوتی ہے۔ چنانچہ جس غیر سرکاری ادارے کے انتظام کی بات ہو رہی ہے اس کی طرف سے مہیّا لیڈی ڈاکٹرزایک اہم ترین سہولت ہے۔ہماری حکومتوں کے اکابرین خدارا غور کریں۔خدارا یہ سوچیں کہ اگر یہ سب سندھ میں ممکن ہوا ہے تو دیگر صوبوں میں رہنے والی دیہی خواتین اب تک کیوں محروم ہیں۔
دو اور سہولتیںسندھ میں ان مراکز ِ صحت میں ناقابلِ یقین ہیں۔ ایک تو یہ کہ خواتین کے لیے 253مراکزدن رات یعنی /7 24کھلے ہوتے ہیں۔ جی ہاں زچگی اور تولید سے متعلق مناسب سہولیات ان 253مراکز میںروزانہ 24گھنٹے دستیاب ہوتی ہیں۔ پاکستان بھر میںایسی سہولت اس سطح پر کہیں اور میسّر نہیں ہے۔ دوسری سہولت جس کا ذکر ضروری ہے وہ الٹراسائونڈ کی سہولت ہے۔خواتین کے طبّی مسائل میں تشخیص کے لیے یہ مشین کس قدر اہم ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ سندھ میں ان 22اضلاع میں مذکورہ 253مراکز میں الٹراسائونڈ اور لیڈی ڈاکٹر زموجود ہیں۔ اس کے علاوہ 41لیڈی ڈاکٹرزالٹراسائونڈ" سپیشلسٹ "بھی مقرّرہیںجو ہر روز ایک نئے مرکز میں منتظر خواتین کا الٹراسائونڈ ٹیسٹ کرتی ہیں۔ اِس ادارے کے پاس آج سندھ میں 300سے زائد الٹراسائونڈ مشینیں دیہات میں زیرِ استعمال ہیں۔ انہوں نے سال 2016ء کے دوران 407,865 الٹراسائونڈ ٹیسٹ کئے اور2017ء کے صرف پہلے چار ماہ کے دوران156,540 الٹراسائونڈ ٹیسٹ کیے۔یاد رہے یہ ٹیسٹ ہمیشہ مفت ہوتے ہیں۔ www.pphisindh.org ویب سائٹ پر جا یئے اور تفصیلات ملاحظہ کیجئے۔ یہ ذکردرحقیقت دعوتِ فکر ہے۔ حکومتی اکابرین غور فرمائیں۔
مبالغہ نہیں لیکن سند ھ میں انقلابی کامیابی کی اگر ایک وجہ جاننے کا تقاضا کیا جائے تو انصاف یہ ہو گا کہ سیّد قائم علی شاہ اور سیّد مراد علی شاہ کے نام لئے جائیں۔ سندھ میں یہ نتائج اوّل اوّل اُن کی اعانت کا ثمر ہیں۔ اس مختصر جواب میں بہت کچھ جمع کرنا مقصودہے۔ دعا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سیکھنے میں عار محسوس نہ کریں۔ آمین!