غیر مستحکم پالیسیاں آٹو پارٹس انڈسٹری کی ترقی میں بڑی رکاوٹ

غیر مستحکم پالیسیاں آٹو پارٹس انڈسٹری کی ترقی میں بڑی رکاوٹ

کراچی(رپورٹ :حمزہ گیلانی)پاکستان میں گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والی مقامی صنعت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تھائی لینڈ اور ویتنام کے ماڈلز کی طرز پر ترقی کیلئے تعاون فراہم کرے تاکہ برآمدات کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

پاکستان آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینئر نائب چیئرمین شہریار قادر نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں خام مال پر انحصار اور اسکی بلند قیمتیں، محدود مقامی،غیر مسابقتی یوٹیلیٹی چارجز، سیکیورٹی بحران شامل ہیں۔ شہریار قادر نے کہا کہ تھائی لینڈ اور ویتنام نے چند مخصوص اقدامات کے ذریعے عالمی آٹو انڈسٹری میں برآمدی مرکز کی حیثیت حاصل کی،ان اقدامات میں مقامی صنعت کو ابتدائی مرحلے میں تحفظ دینا،غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تکنیکی اشتراک اور انڈسٹریل پارکس کے ذریعے راغب کرنا اور برآمد سے منسلک مراعات دینا جن میں مقامی پیداوار اور برآمدی اہداف کی تکمیل پر مالی فوائد شامل ہیں۔

شہریار قادر کا کہنا تھا کہ مقامی آٹو پارٹس انڈسٹری کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ پالیسیوں کا غیر مستحکم ہونا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آٹو انڈسٹریل ڈیولپمنٹ پلان کے تحت 2012 تک 5 لاکھ گاڑیوں کی پیداوار کا ہدف رکھا گیا تھالیکن اس منصوبے کے دوران ہی ڈیوٹی اسٹرکچر تبدیل کر دیا گیااور مجوزہ اقدامات جیسے ٹیکنالوجی فنڈز اور کلسٹر ڈیولپمنٹ کو ختم کر دیا گیا،اس کے بعد 2012 سے 2016 تک کے چار سالہ عرصے میں کوئی واضح پالیسی فریم ورک موجود نہیں تھاجس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا اور پارٹس وینڈرز کے توسیعی منصوبے متاثر ہوئے ،پھر آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی میں نئے اسمبلرز کے لیے ایسی مراعات متعارف کرائی گئیں، جن کے تحت پہلے سے مقامی سطح پر تیار ہونے والے پرزہ جات پر بھی 50 فیصد ڈیوٹی رعایت دی گئی جس سے مقامی مینوفیکچررز کا مارکیٹ شیئر متاثر ہوا اور درآمدی اسمبلی کوفروغ ملا۔

انہوں نے کہا کہ ان پالیسی رکاوٹوں کے علاوہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد بھی مقامی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے ،استعمال شدہ گاڑیوں کا مارکیٹ شیئر 25 فیصد تک پہنچ چکاہے اور سالانہ 40ہزار گاڑیاں درآمد ہورہی ہیں ،یہ سب کم مقررہ ڈیوٹیوں، 1300 سی سی سے کم گاڑیوں پر مراعات اور پانچ سال پرانی وینز کی درآمد کی اجازت کے باعث ممکن ہوا۔شہریار قادر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کالا دھن چھپانے کاایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے کیونکہ انکی درآمد اور فروخت کا تمام عمل غیر دستاویزی ہوتا ہے ،درآمد کے لیے رقم ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے اور مقامی سطح پر تمام فروخت کیش کی شکل میں کی جاتی ہے ،یہ صورتحال مکمل طور پر رجسٹرڈ اور ٹیکس ادا کرنے والے مقامی مینوفیکچررز کے لیے شدید نقصان دہ ہے جو ہزاروں آٹو پارٹس مقامی آٹو اسمبلرز کو فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ اگر حکومت مقامی صنعت کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانا چاہتی ہے تو اسے تھائی لینڈ اور ویتنام کے ماڈلز سے سیکھ کر فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں