زیر حراست ملزموں کا فرار ،پولیس کار کردگی پر سوالات

زیر حراست ملزموں کا فرار ،پولیس کار کردگی پر سوالات

فیصل آباد(عبدالباسط سے )ڈکیتی، چوری، راہزنی، منشیات فروشی، اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات میں زیر حراست ملز موں کو عدالتوں میں پیشی کے دوران پولیس حکام کی غفلت اور ناقص کارکردگی کے باعث ملز موں کے فرار ہونے کے واقعات آئے روز سامنے آنے لگے ہیں۔

 گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران عدالت پیشی کے دوران پولیس کی غفلت کے باعث8ملزم پولیس کی موجودگی میں فرار ہو چکے ہیں ۔ زیر حراست ملز موں کے فرار ہونے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے پولیس کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے ۔ جبکہ زیر حراست ملز موں کے فرار ہونے کے واقعات میں ملوث اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر بھاری رقوم وصول کرنے کے انکشافات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ذرائع کے مطابق ملز موں کو پولیس کی سخت سکیورٹی میں عدالت پیش کرنے کے ایس او پیز بنائے گئے ہیں۔ زیر حراست ملز موں کو عدالتی کارروائی کیلئے عدالت پیش کرنے کے لئے خصوصی سکیورٹی پلان ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کے تحت ملز موں کے ساتھ پولیس اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں۔ تاکہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکے ۔گزشتہ روز بھی منشیات کے مقدمے میں زیر حراست ملزم ابرارفرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

ذرائع کے مطابق پولیس حراست سے فرار ہونے والے ملز موں کے ورثا اور دیگر ساتھیوں سے پولیس اہلکاروں اور افسروں کی جانب سے مبینہ طور پر بھاری نذرانے وصول کئے جاتے ہیں اور اس کے عوض انہیں فرار کرواتے ہوئے مختلف بہانے اختیار کرتے ہوئے حکام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس سے جرائم میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں عمل میں لانے کی بجائے پولیس مبینہ طور پر غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہے ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور ایسی کاروائیوں میں ملوث اہلکاروں کیخلاف سخت محکمانہ کار روائیاں عمل میں لاتے ہوئے انہیں عبرت کا نشان بنائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کو جڑ سے ختم کیا جاسکے ۔ سٹی پولیس آفیسر ڈی آئی جی کامران عادل کی جانب سے نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کو معطل کرنے کے ساتھ ناصرف ان کے خلاف محکمانہ اور قانونی کار روائی کا آغاز کردیا گیا۔ جبکہ فرار ہونے والے ملز موں کی گرفتاری کے لئے بھی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جا چکی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں