چین پاکستان کو ہمارے اہم ٹھکانوں کی لمحہ بہ لمحہ معلومات دیتا رہا، ہمیں وقت پر اہم سامان نہیں ملا:بھارتی ڈپٹی آرمی چیف

چین پاکستان کو ہمارے اہم ٹھکانوں کی لمحہ بہ لمحہ معلومات دیتا رہا، ہمیں وقت پر اہم سامان نہیں ملا:بھارتی ڈپٹی آرمی چیف

نئی دہلی (دنیا مانیٹرنگ ،نیوز ایجنسیاں )بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے کہا ہے کہ مئی میں پاک بھارت جنگ کے دوران چین پاکستان کو ہمارے اہم ٹھکانوں کی لمحہ بہ لمحہ معلومات دیتا رہا۔

ہمیں وقت پر اہم سامان نہیں ملا،چین نے اسلام آباد کو براہ راست معلومات فراہم کیں،انہوں نے کہا ہم نے دو محاذوں پر لڑائی لڑی،پاکستان سامنے تھا ،ترکیہ اور چین اسے مدد فراہم کر رہے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرِاہتمام ’نیو ایج ملٹری ٹیکنالوجیز‘ کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انڈین فوج نے آپریشن سندور کے دوران کون سے سبق سیکھے ۔انہوں نے کہا پہلا تو یہ کہ ایک سرحد تھی لیکن دشمن دو بلکہ اگر میں کہوں تین تو غلط نہیں ہو گا۔ پاکستان سامنے تھا اور چین اسے تمام مدد فراہم کر رہا تھا اور یہ زیادہ اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر آپ اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو گزشتہ پانچ سال میں 81 فیصد اسلحہ اور آلات جو پاکستان کو ملے ہیں وہ سب چینی ساختہ تھے ۔ترکیہ نے بھی پاکستان کو مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، بیراکتر ڈرون وہ پہلے ہی دے رہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی ڈرونز جنگ کے دوران نظر آئے اور ان کے ساتھ ماہر افراد بھی موجود تھے ۔ انہوں نے چین کی سیاسی، جنگی اور داخلی حکمت عملی کے حوالے سے موجود 36 سٹریٹیجمز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ بھی درج ہے کہ ادھار کی چھری سے وار کرو یعنی وہ خود شمالی سرحد پر وار کرنے کی بجائے اپنے ہمسائے کو استعمال کرے گا تاکہ وہ نقصان پہنچا سکے ۔ انہوں نے کہا چین نے یہ بھی جائزہ لیا ہو گا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو دوسرے ہتھیاروں کے سسٹمز کے خلاف ٹیسٹ کر پا رہا تھا، یعنی وہ اس کے لیے ایک لائیو لیب کی طرح تھا، اس لیے یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔اس کے بعد جو سبق ہم نے سیکھا وہ سی 4 آئی ایس آر اور سول ملٹری فیوژن کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔خیال رہے سی 4 آئی ایس آر سے مراد کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلینس اور ریکانیسانس ہوتا ہے اور اسے کسی بھی فوجی آپریشن کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے ۔بھارتی جنرل نے کہا جب ڈی جی ایم او لیول پر بات چیت ہو رہی تھی تو پاکستان ہمیں بتا رہا تھا کہ آپ کے یہ اہم ویکٹر جارحیت کے لیے تیار کھڑے ہیں اس لیے انہیں وہاں سے واپس بلا لیں، انہیں چین سے لائیو معلومات مل رہی تھیں، یہ وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں ہمیں تیزی سے اقدامات لینے ہوں گے ۔ لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے کہا ہمیں الیکٹرانک وارفیئر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے بہتر ایئر ڈیفنس نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا ہماری شہری آبادی کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس اسرائیل کے طرح آئرن ڈوم اور دیگر فضائی دفاعی نظام سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی سہولت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اور ان کی تعمیر میں بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے ۔ اس لیے ہمیں اس حوالے سے نئے حل ڈھونڈنے ہوں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ ایک اور سبق یہ تھا کہ ہمیں محفوظ سپلائی چین بنانی ہو گی۔ جو آلات ہمیں اس سال جنوری یا گزشتہ برس اکتوبر، نومبر میں ملنے چاہئیں تھے ، وہ ہمارے پاس موجود نہیں تھے ۔جب 22 اپریل کے بعد ایک جگہ بات کرتے ہوئے میں نے متعدد ڈرون بنانے والی کمپنیوں سے پوچھا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ کتنی جلدی ہمیں ڈرون فراہم کر سکتے ہیں، تو متعدد لوگوں نے ہاتھ کھڑے کیے تھے ، لیکن جب ایک ہفتے بعد میں نے انہیں دوبارہ کال کی تھی، تو کچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ ہماری سپلائی چینز ہیں، ہمیں اب بھی بہت ساری چیزوں کے لیے بیرون ملک دیکھنا پڑتا ہے ۔ اگر وہ تمام آلات ہمیں مل جاتے تو کہانی کچھ مختلف ہوتی۔انہوں نے کہا اگلے راؤنڈ میں ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ ایئر ڈیفنس، زیادہ سے زیادہ جوابی راکٹس، آرٹلری اور ڈرون نظام کو تیار کرنا ہو گا اور اس کے لیے ہمیں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے ملک میں دفاعی ساز وسامان کے حصول اور ڈلیوری میں ہونے والی تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔گزشتہ دنوں ایک خطاب کے دوران بھارتی ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے کہا کہ ایک بھی دفاعی منصوبہ کبھی وقت پر پورا نہیں ہوتا۔ اے پی سنگھ نے کہا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کا وعدہ ہی کیوں کریں جو حاصل نہیں کی جا سکتی؟، کئی بار کسی معاہدے پر دستخط کرتے وقت ہی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ وقت پر نہیں ہو پائے گا لیکن ہم اس کے باوجود یہ کنٹریکٹ کرتے ہیں۔واضح رہے پاکستان کی طرف سے اس بات کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے 7 سے 10 مئی تک جاری رہنے والے تنازع میں اپنے بل بوتے پر بھارت کا مقابلہ کیا اور اسے کسی قسم کی چینی مدد حاصل نہیں تھی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں