ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امیر ممالک ویکسین کا وعدہ پورا کریں

تحریر: ٹیڈراس ایڈنوم

اب تک دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی ایک ارب سے زائد خوراکیں تقسیم کی جا چکی ہیں اس کے باوجود ہر ہفتے ریکارڈ تعداد میں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اموات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا ویکسین بھی کووڈ پر قابو پانے میں مدد نہیں کر سکتی؟ اس وقت دنیاکے کئی ممالک اس سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں، کووڈ تیزی سے پھیل رہا ہے، آئی سی یوز مریضوں سے بھر چکے ہیں اور آکسیجن کی سپلائی میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کورونا کی کئی نئی اقسام منظر عام پر آ گئی ہیں، ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا اور ماسک پہننے اور احتیاطی فاصلہ رکھنے کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جبکہ ویکسین کی تقسیم میں ناانصافی بھی ہو رہی ہے۔ سائنسدانوں نے کم وقت میں کورونا کی کئی ویکسینز تیار کر لیں مگر اس وقت تک دنیا میں جو 890 ملین ڈوز فراہم کی گئی ہیں ان میں سے 81 فیصد صرف امیر ممالک میں تقسیم کی گئی ہیں۔ غریب ممالک کو صرف 0.3 فیصد ویکسین پر ہی ٹرخا دیا گیا ہے۔ ایسا دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔ جب 1980ء کی دہائی میں دنیا میں ایچ آئی وی کا وائرس پھیلا تھا تو بڑی تیزی سے زندگی بخش Anti Retro Virals تیار کیے گئے تھے مگر یہ آج سے دس سال پیشتر ہی صحرائے صحارا میں دستیاب ہو سکے۔ ایک سال پہلے ڈبلیو ایچ او اور دیگر تنظیموں نے مل کر کوشش شروع کیں۔ ACT یعنی ایکسیس ٹو کووڈ ٹولز ایکسلریٹر جس میں ویکسین شیئرنگ کیلئے کوویکس پر بھی کام شروع ہو گیا تھا تاکہ ویکسین کی منصفانہ تقسیم، کووڈ کی تشخیص اور علاج ہو سکے۔ سب کچھ اچھی طرح واضح تھا۔ ایسے وقت میں جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون سی ویکسین زیادہ موثر ثابت ہو گی تو کویکس کو ویکسین کی تیاری، خریداری اور منصفانہ تقسیم کی بھاری ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

جب سائنسدان لیبارٹریوں میں مصروف تھے‘ عالمی ادارۂ صحت اور دیگر تنظیموں نے ویکسین کے ٹرائلز، فنڈز کی فراہمی، ویکسین کی مینو فیکچرنگ اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ویکسین کی تقسیم کا بندوبست کیا۔ تمام فریقوں نے اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا مگر یہی امیر ممالک جو کوویکس کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرا رہے تھے‘ خفیہ طور پر ویکسینز کی خریدار ی کے آرڈرز دے رہے تھے۔ جنوری میں مَیں نے ایک عالمی چیلنج پیش کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ تمام ممالک میں پہلے ایک سو دنوں میں کتنے ممالک میں ویکسین لگنا شروع ہوتی ہے۔ 10اپریل کو ایک سو دن ہونا تھے اور ہم اپنے ہدف کے قریب پہنچ گئے تھے۔ 26 ممالک میں ویکسین کا عمل شروع ہوا تھا جبکہ 12ممالک میں شروع ہونے والا تھا۔ چودہ ممالک نے یا تو کوویکس سے ویکسین کی درخواست ہی نہیں کی تھی یا ابھی ویکسین شروع نہیں کرنا چاہتے تھے مگر فراہم کی جانے والی ویکسین انتہائی کم تھی۔ جمعرات تک کوویکس نے 119 ممالک کو 43 ملین ڈوز فراہم کی ہیں جو صرف 0.5 فیصد آبادی کو کور کر سکتی ہیں۔ اس بحران کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ویکسین کے معاملے میں قوم پرستی نے کوویکس کو کمزور کیا اور امیر ممالک نے تیار ہونے والی زیادہ تر ویکسین خود خرید لی جبکہ باقی دنیا منہ دیکھتی رہ گئی۔ کئی ممالک نے اتنی ویکسین کا آرڈر دے دیا تھا جس سے ان کی پوری آبادی کوکئی مرتبہ ویکسین لگائی جا سکتی تھی۔ باقی دنیا کو دینے کا وعدہ اسی وقت کیا گیا جب اپنی ضرورت کے مطابق انہوں نے یہ ویکسین پوری طرح استعمال کر لی۔ دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ کئی ممالک نے ویکسین ڈپلومیسی کے تحت کوویکس کو نقصان پہنچایا کیونکہ ویکسین بنانے والے ممالک نے دوطرفہ عطیے کے طور پر ویکسین دینا شروع کر دی اور اس میں صحت کے بجائے اپنے جیو پولیٹکل مقاصد کو پیش نظر رکھا گیا۔ اس کی تیسری وجہ اسی طرح غلط انفارمیشن کی وجہ سے لوگوں کا ویکسین لگوانے سے گریز تھا جس طرح دنیا میں خسرے کی وبا کے موقع پر لوگوں کا گریز دیکھنے میں آیا تھا۔ ہمیں اس حوالے سے بالکل واضح ہونا چاہئے کہ ہمارے نزدیک سیفٹی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ہم ہر طرح کے مضر پہلوئوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس بحران کی چوتھی وجہ جذباتی جوش و خروش ہے جس نے ہماری ساری کوششوں کو بری طرح متاثرکیا کیونکہ کئی ممالک نے صحت عامہ کے کئی اقدامات پر بہت جلد نرمی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا تھا اور لوگوں نے سمجھنا شروع کر دیا کہ ویکسین نے کووڈ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے تھا۔ ویکسین کی قلت نے ناانصافی کو جنم دیا اور دنیا بھر میں ریکوری کی شرح کو متاثر کیا۔ جس علاقے میں بھی کووڈ زیادہ پھیلا اسی علاقے میں تجارت اور سفر کرنے کا سلسلہ زیادہ عرصے کے لیے متاثر ہو گا۔ اسی علاقے میں کووڈ کی نئی اقسام کے منظرعام پر آنے کا زیادہ امکان ہے جو ویکسین کو غیر مؤثر کر دیتی ہیں۔

اس وقت یہی امکان ہے کہ جو امیر ممالک اپنے شہریوں کو ویکسین لگا چکے ہیں‘ اب کووڈ کی نئی اقسام سے بچائو کے لیے بوسٹرز لگوانا شروع کر دیں گے جبکہ کئی ممالک ابھی کووڈ کی پہلی وبا سے ہی نمٹ رہے ہوں گے۔ یہ ناانصافی قابل قبول نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ویکسین بنانے والے ممالک اس سے بھاری دولت کمائیں گے جبکہ ایکٹ ایکسلریٹر کو بڑے پیمانے پر ویکسین کی فراہمی کیلئے ابھی تک انیس ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے لیکن اگر فنڈز دستیاب ہوں مگر خریدنے کیلئے ویکسین ہی موجود نہ ہو تو ان فنڈز کا کیا فائدہ؟ اس مسئلے کا حل تین سطحی ہے۔ جو ممالک اور کمپنیاں ویکسین کی عالمی سپلائی کو کنٹرول کرتے ہیں‘ وہ فوری طور پر اپنی ڈوز کو کوویکس کے ساتھ شیئر کریں اور ویکسین کی پیداوار اور اس کی منصفانہ تقسیم کے لیے اپنی مہارت اور علم کو دیگرممالک کے ساتھ شیئر کریں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو لائسنس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کریں جن کے پاس کسی اور مینوفیکچرز کا ویکسین بنانے کا لائسنس پہلے سے موجود ہے۔ کئی کمپنیوں نے دوطرفہ طور پر پہلے ہی ایسا کرنا شروع کر دیا ہے مگر ایسے معاہدے اکثر غیر شفاف ہوتے ہیں اور ویکسین تک منصفانہ رسائی کو کمپرومائز کرتے ہیں۔ایک آپشن یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت کووڈ کی پروڈکٹس سے انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کو ختم کر دیا جائے۔ اس طرح کئی ممالک اپنے طور پر آزادی سے کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں گے۔ صحت عامہ کے ان مصدقہ اقدامات کی مدد سے ہمارے پاس ایسے بہت سے ٹولز ہیں جو ہمیں چند مہینوں کے اندر اندر کووڈ پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اب بس یہی ایک چوائس رہ گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ وسائل کو شیئر کریں۔ یہ سب سائنس، مالی وسائل یا صنعتی شجاعت کی نہیں‘ درحقیقت ہمارے کردار کی آزمائش ہے۔ 

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement