"RKC" (space) message & send to 7575

تین ہاتھوں کی کہانی

کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف کی تاجروں سے ملاقات میں مشہور کاروباری شخصیت عارف حبیب نے وزیراعظم سے کہا کہ انہیں بھارت اور عمران خان سے ہاتھ ملانا چاہیے تاکہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے۔ یہ تجویز یقینا اہم ہے‘ تاہم جہاں تک میری معلومات ہیں یہ دونوں کام وزیراعظم شہباز شریف کے بس سے باہر ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو بھی یہ دونوں کام نہیں کر سکتے۔ اب آپ کہیں گے کہ اگر ملک کا وزیراعظم یہ کام نہیں کر سکتا تو پھر اور کون کر سکتا ہے؟
ایک بات تو یہ کہ شہباز شریف نے ماضی میں یہ پیشکش کی تھی لیکن خان صاحب نے ٹھکرا دی تھی۔ شہباز شریف نے 2018ء کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ وہ ملک کو مشکل سے نکالنے کیلئے میثاقِ معیشت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ شہباز شریف‘ جن پر منی لانڈرنگ اور دیگر مقدمات تھے‘ شاید اس صلح صفائی کے نام پر اپنے مقدموں میں کلین چٹ چاہتے تھے۔ عمران خان تو اپوزیشن سے اتنے ناراض تھے کہ جب بعض قومی معاملات پر اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت پڑی تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو کہا گیا کہ وہ جا کر اپوزیشن لیڈرز کو بریفنگ دے دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ہر موقع پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ میں ڈاکوؤں اور چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ میرے خیال میں یہ عمران خان کی بڑی غلطی تھی جس سے مقتدرہ کو یہ پیغام گیا کہ ملک کا وزیراعظم اپنی پہاڑ جتنی اَنا کے خول میں بند ہے اور وہ اہم قومی معاملات پر بھی اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے پر تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن اراکین‘ جن میں بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن‘ خواجہ آصف اور دیگر شامل تھے‘ مقتدرہ کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ جس شخص کو انہوں نے بڑی محنت اور کوشش سے وزیراعظم بنوایا‘ وہ تو اہم سکیورٹی معاملات کے اجلاس میں بھی شریک ہونے کو تیار نہیں۔ جب اُن اجلاسوں میں اپوزیشن نے پوچھا کہ وزیراعظم کدھر ہیں تو بتایا گیا کہ وہ اُن کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ اسی طرح جب عمران خان نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ کیا تب بھی انہوں نے خود ہی جنرل باجوہ کو اپوزیشن خصوصاً آصف زرداری اور نواز شریف کے قریب کیا‘ جن کے ووٹوں کے بغیر وہ ترمیم پاس نہیں ہو سکتی تھی۔ عمران خان جانتے تھے کہ اگر وہ دونوں جنرل باجوہ کو ووٹ دیں گے تو جواباً کچھ مانگیں گے بھی۔ کیا جیل میں قید نواز شریف اور آصف زرداری نے مفت میں جنرل باجوہ کے لیے ووٹ دینا تھا؟
عمران خان نے خود ہی اپنے خلاف اس سازش کی بنیاد رکھی تھی‘ اگر واقعی انہیں ہٹانے میں کسی سازش کا کوئی وجود تھا۔ جب ملک کا وزیراعظم مقتدرہ کے اصرار کے باوجود جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو مسلسل اپوزیشن سے ملاقاتوں کا موقع دے رہا تھا اور خود اپنی اَنا کی قید میں تھا تو پھر یہی کچھ ہونا جو ہوا۔ عمران خان یا تو اپوزیشن سے خود ملتے یا پھر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو بھی ملاقاتوں سے روک دیتے۔ یہاں تو اُلٹا مقتدرہ وزیراعظم کو کہہ رہی تھی کہ ملکی سلامتی کے اہم اجلاس ہیں‘ اگر ہاؤس کے اندر مل کر قانون سازی نہ کرائی گئی تو فیٹف میں پاکستان بلیک لسٹ ہو جائے گا۔ اور عمران خان کہتے رہے کہ یہ میرا دردِ سر نہیں ہے۔ آپ خود ہی اپوزیشن کو راضی کر لیں‘ میں کیوں اپوزیشن کے منت ترلے کروں۔
عمران خان کی اَنا جب ملکی سلامتی پر بھاری پڑ گئی تو پھر یقینا مقتدرہ نے سوچا ہو گا کہ اگر ملک کے وزیراعظم کو ملکی سلامتی کے ان اہم ایشوز سے زیادہ اپنی اَنا کی فکر ہے تو پھر اسے وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یوں مقتدر حلقوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ بندہ حکمرانی کے لائق نہیں۔ بعد ازاں دیگر عوامل بھی اس میں شامل ہوتے چلے گئے اور آخرکار ایک دن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا لادا گیا تو اونٹ ہی گر پڑا۔ اس میں جس کی بھی غلطی ہے اب اُسے ڈھونڈتے رہیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ عمران خان سے اگر شہباز شریف ایک بار پھر ہاتھ ملانا چاہیں تو بھی وہ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہیں۔ خان صاحب کو لگتا ہے اگر انہوں نے ان ''چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ سے ہاتھ ملا لیا تو ان کا نوجوان ووٹر مایوس ہو گا اور ان کی سیاست کو نقصان پہنچے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جیل جانے اور ان کو سزائیں ہونے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں اپنی پارٹی کی جیت کو اسی قید کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
عمران خان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ انہیں اگر وزیراعظم بنایا جائے تو وہ متقدرہ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں اور وہ کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو وہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ وہ موجودہ قیادت کو بھی کئی دفعہ یہ پیغام بھجوا چکے ہیں کہ انہیں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر میں وزیراعظم بنا تو انہیں عہدے سے ہٹا دوں گا۔ لیکن اس کے باوجود موجودہ قیادت بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سابق صدر عارف علوی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے کوشش کی تھی کہ مقتدرہ اور عمران خان میں صلح کرائی جائے لیکن کوئی ان کا فون سننے کو تیار نہیں تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ عمران خان شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں اور جن سے عمران خان ہاتھ ملانا چاہتے ہیں وہ ان کا فون سننے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں اگر شہباز شریف چاہیں بھی تو عمران خان کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں کر سکتے۔ خان صاحب وزیراعظم شہباز شریف کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عمران خان کا شہباز شریف سے بات نہ کرنا سمجھ میں آتا ہے کہ وزیراعظم کی کرسی ایک ہے اور اس کے امیدوار دو۔ اگر عمران خان شہباز شریف کو وزیراعظم مان کر سیاسی دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو پھر انہیں وزیراعظم بننے کیلئے پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اور پانچ سال انتظار کرنے کو وہ تیار نہیں ہیں۔ شہباز شریف بھی ملکی استحکام کے نام پر اپنی کرسی عمران خان کو دینے سے رہے۔ شہباز شریف کو یہی سوٹ کرتا ہے کہ مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان اختلافات برقرار رہیں۔ شہباز شریف کی کرسی عمران خان نے خودمزید پکی کر دی جب انہوں نے پچھلے دنوں عدالت میں صحافیوں کو کہا کہ اگر ان کی اہلیہ کو کچھ ہوا تو وہ فلاں فلاں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے قبل بشریٰ بیگم نے کہا تھا کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو تین افراد کو عوام نہیں چھوڑیں گے۔ دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ اگر وہ کسی سے بات کریں گے تو صرف مقتدرہ سے کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف مقتدرہ ہی انہیں شہباز شریف کی جگہ وزیراعظم بنا سکتی ہے لہٰذا وہ کسی اور سے بات کرنے کو تیار نہیں جبکہ وہ مزید پانچ سال تک انتظار بھی نہیں کرسکتے اور شہباز شریف پانچ سال سے پہلے ان سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہوں گے۔
ان حالات میں عارف حبیب وزیراعظم کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان سے ہاتھ ملائیں۔ اب آپ بتائیں‘ عمران خان شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں اور مقتدرہ عمران خان سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہے۔ انہی تین ہاتھوں میں اس ملک کی تقدیر ہے اور یہ تینوں اس طرز پر ایک دوسرے سے ملنے کو تیار نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں