جی تو چاہتا ہے کہ آج کل نیویارک‘ بوسٹن یا پھر اپنی پرانی ریاست کیلیفورنیا کی جامعات میں جاری طلبہ کے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتا۔ وضاحت کرتا چلوں کہ اپنے ملک کے علاوہ کسی اور کا شہری کبھی تھا اور نہ اس کی خواہش ہے۔ مگر کیلیفورنیا‘ جہاں اپنی جوانی کا کچھ حصہ گزرا‘ تعلیم حاصل کی اور وہاں تین مختلف جامعات میں تدریس و تحقیق کی‘ اپنے دل کے بہت قریب ہے۔ وہاں کے دوستوں سے اب بھی رابطہ رہتا ہے‘ اور دنیا کے کسی حصے میں کچھ کے ساتھ ملنے کا اتفاق بھی ہوتا رہتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘ برکلے جہاں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ رہا‘ طلبہ احتجاج کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ ویتنام جنگ اور امریکی قیادت کے خلاف نوجوانوں کی تحریک کا آغاز 1968ء میں اسی جامعہ سے ہوا تھا‘ جو بعد میں پورے ملک میں پھیل گئی۔ یہ سال ہماری اور دنیا کی تاریخ میں طاقتور حلقوں کے سامنے نوجوانوں کے اٹھ کھڑا ہونے اور نئی مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اسی سال اپنے ملک میں ایوب خان کی آمریت کو میرے ہم عصروں نے کالجوں اور جامعات میں چیلنج کیا تھا۔ برکلے میں شروع ہونے والے احتجاج کی بنیاد اور فلسفہ زیادہ گہرا اور مختلف تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت‘ سرمایہ دار‘ کارپوریشن میڈیا کی آزادی‘ ترقی اور مغربی دنیا کی سلامتی کے نام پر نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کرکے ویتنام کی جنگ میں دھکیل رہے تھے تو وہاں طلبہ نے ان کے بیانیے‘ جنگ کے جواز اور ترقی کے سب پیمانوں کو حکمران طبقات کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ جلد ہی یہ تحریک مغربی نظام کے خلاف نوجوانوں کی بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔ جبری بھرتی کا قانون ایسا تھا کہ انکار کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔
طلبہ تحریک نے پورے امریکہ بلکہ پوری دنیا میں مزاحمت کا نیا شعور پیدا کیا اور ادبی اور ثقافتی جہتوں میں رنگ بھرا۔ امریکی موسیقی‘ شاعری اور تخلیقی ادب بے حد معتبر ہوا۔ 1969ء میں نیویارک ریاست کے ایک مقام‘ وُڈ سٹاک نے دنیا میں شہرت حاصل کی جہاں تین دن مسلسل ایک میوزک فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔ کسی زمانے میں وُڈ سٹاک کنسرٹ کی کچھ ٹیپس ہمارے پاس بھی تھیں‘ معلوم نہیں اب کہاں ہیں۔ اسی تحریک سے ایک اور تحریک ابھری‘ جسے کائونٹر کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے تعلیم‘ ڈگری اور پیشے کو اختیار کرنے کے بجائے 'ہیپی طرزِ زندگی‘ کو اپنا لیا۔ یہ ایک طرح کی نظام سے بغاوت تھی کہ انہوں نے صنعتی اور سرمایہ دارانہ نظام میں ایک معمول کا پرزہ بننے کے بجائے آزاد منش زندگی گزارنے کی راہ اختیار کر لی۔ اس کا ایک بہت بڑا منفی پہلو منشیات کا استعمال اور دنیا سے مکمل لاتعلقی کی صورت میں نکلا۔ برکلے اور دیگر جامعات کے قریبی علاقوں میں دس سال بعد بھی لوگوں کوبے روزگار‘ بے گھر اور اکثر کو منشیات کا عادی دیکھا گیا۔ بغاوت کی اس شکل نے کئی زندگیاں تباہ کر دیں۔
طلبہ تحریک اپنا بنیادی مقصد حاصل کرنے میں نہ صرف امریکہ میں کامیاب ہوئی بلکہ ہمارے جیسے ممالک میں بھی طلبہ تحریکوں کو تقویت ملی۔ امریکی اور ہماری طلبہ تحریکوں میں شروع میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وہاں جنگ کے خلاف مزاحمت تھی تو یہاں بھی ایک اصول کے لیے میری نسل کے طلبہ سڑکوں پر آئے تھے کہ حکومتیں عوامی تائید اور حمایت سے بنیں اور ان کی نمائندہ ہوں۔ بعد میں اس تحریک میں ہمارے ملکوں میں سیاسی جماعتوں اور اب تو فرقہ وارانہ گروہوں نے مداخلت کرکے اپنی اپنی نرسریاں بنا لی ہیں۔ اب یہاں کسی اصول اور نظریے کی بنیاد پر طلبہ تنظیمیں کام نہیں کرتیں بلکہ اپنی اپنی سرپرست جماعت کے سیاسی اور نظریاتی پروگرام کو پھیلاتی ہیں۔ امریکہ کی جامعات میں کبھی طلبہ کو کسی سیاسی جماعت کے حق میں یا اس کے خلاف جلسوس نکالتے یا کوئی احتجاجی تحریک چلاتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاسی جماعتوں نے عوام اور اعلیٰ سطحوں پر پارٹیوں کو منظم نہیں کیا‘ اس لیے احتجاج کے لیے شہروں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اکٹھا کرکے کام چلاتی ہیں۔
امریکی جامعات میں موجودہ تحریک نے ہمارے دل کو تو بہت گرما دیا ہے کہ یہ سب لوگ جیلوں میں جا رہے ہیں‘ جامعات سے نکالے جا رہے ہیں اور ہر نوع کی پابندیوں کا سامنا ہے‘ مگر وہ اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کی نامور یونیورسٹی‘ ہارورڈ سے ہوا۔ جنگ کا آغاز ہوتے ہی وہاں یہ تحریک شروع ہو گئی۔ یہ بات شاید آپ کو عجیب لگے کہ امریکہ کی ہر جامعہ کی اپنی پولیس ہوتی ہے جسے اختیار ہوتا ہے کہ طلبہ کو گرفتار کرکے ان کے احتجاج کو منتشر کر دے‘ اور اگر طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جائے تو مقامی پولیس کی مدد لی جاتی ہے۔ گرفتار طلبہ کو حوالات میں بند کر کے مقدمات بھی چلائے جا سکتے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی پولیس اور انتظامیہ طلبہ احتجاج کو نہ روک سکی تو اسرائیلی لابی‘ جو امریکہ کے تمام طاقت کے مراکز بشمول اکثر جامعات‘ میڈیا اور کانگریس میں بہت مضبوط اور منظم ہے‘ نے ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر کے خلاف مہم چلائی کہ وہ یہود مخالف جذبات پھیلانے والے طلبہ کا محاسبہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسے امریکی کانگریس نے جواب دہی کے لیے بلایا‘ اور اس دوران ایک اور مہم چلی کہ اس کی اپنی ریسرچ چربہ اور نقل ہے۔ ایسے بھونڈے الزامات کہ یقین نہیں آیا کہ یہ وہی امریکہ ہے جس کی آزادیوں کی تعریف کرتے ہوئے ہم ایک زمانے میں تھکتے نہیں تھے۔
پروفیسر کلاڈین گے نے اسرائیلی جنگ سے دو ہفتے پہلے ہی عہدہ سنبھالا تھا۔ ہارورڈکی تاریخ میں پہلی سیاہ فام‘ اور دوسری خاتون صدر تھیں۔ آخرکار دبائو اتنا بڑھا کہ ہارورڈ کے بورڈ نے انہیں نکال کر دم لیا۔ مگر طلبہ تحریک نہ وہاں تھم سکی‘ اور نہ ہی دیگر جامعات میں۔ آج کل زیادہ زور کولمبیا یونیورسٹی میں ہے جہاں کئی دنوں سے طلبہ نے کیمپ لگا رکھا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ ہر طرف فلسطین کے جھنڈے ہیں‘ اور فلسطینی رومال‘ جو عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں‘ سروں اور گلوں میں نمایاں ہیں۔ اب یہ تحریک کیلیفورنیا تک پھیل چکی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کی صدر‘ نعمت شفق‘ جو ایک اکانومسٹ ہیں اور جن کا خاندان مصر سے تارکِ وطن ہو کر امریکہ میں آباد ہوا تھا‘ آج کل اسرائیلی لابی کی زد میں ہیں۔ انہیں بھی کانگریس میں بلوایا گیا اور تابڑ توڑ حملے ہوئے کہ وہ احتجاج کو کیوں کنٹرول نہیں کر سکیں۔ میرے خیال میں شاید اُنہیں بھی نکال دیا جائے گا۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ امریکی طلبہ تحریک میں صرف مسلمان یا عرب ہیں تو یہ درست نہیں۔ اس میں ہر مذہب‘ قوم اور ہر نسل کے نوجوان ہیں۔ ان کی تحریک فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ہے۔ اسرائیل اور کانگریس‘ دونوں سیاسی جماعتیں اور ہمیشہ کی طرح امریکی میڈیا اس تحریک کو یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا نام دے کر ختم کرنے کے درپے ہے۔ آزادیٔ تقریر اور تحریر پر اب پابندیوں کی یہ نوعیت ہے کہ آپ ''دریا سے سمندر تک‘‘ کا فقرہ زبان پر نہیں لا سکتے۔ اس کا مطلب سمجھا جائے گا کہ آپ اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘ اور یہودیوں کی نسل کشی کی سازش تیار کر رہے ہیں۔ جس تعداد میں مغربی ممالک میں لوگ اسرائیل کی جنگ کے خلاف نکلے ہیں اور جس طرح امریکی طلبہ نے دبائو بڑھایا ہوا ہے‘ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ جذبۂ انسانیت کہیں تو زندہ ہے۔ اپنے ہاں دیکھیں‘ حکمرانوں سے لے کر نوجوانوں اور عوام تک بے حسی ہے۔ خوف‘ ڈر اور مسکینی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔