جب مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو‘ ان کی نسل کشی ہو رہی ہو‘ ان پر میزائل یا بم مارے جا رہے ہوں تو دنیا اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ افغانستان‘ عراق اور شام کا حال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن کسی اور مذہب کے لوگوں کو کوئی اُف بھی کہہ دے تو اس کو ایک عالمی سانحے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ظلم و زیادتی کسی کے ساتھ بھی ہو‘ وہ تکلیف دہ ہے اور ہمیں اس پر افسوس اور مذمت کا اظہار کرنا چاہیے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس میں رنگ‘ نسل‘ قومیت یا زبان کی تفریق کے بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ انسانیت سب سے مقدم ہے۔ دنیا کو مخصوص رنگ‘ مذہب یا نسل کے بجائے فقط انسانوں کی تکلیف کو محسوس کرنا چاہیے۔ کسی کا رونا‘ کسی کے آنسو کب عرش ہلا دیں‘ کچھ معلوم نہیں۔ ظلم ہر صورت قابلِ مذمت ہے۔ جو بھی دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کا شکار ہو‘ اس کا ساتھ دیں۔ کوئی جنگ کی لپیٹ میں آ جائے تو اس کی مدد کریں‘ اس کو پناہ دیں۔ مگر یہاں اُلٹا حساب ہے۔ دوسروں پر جنگ مسلط کرکے اپنے بارڈر بھی بندکر دیے جاتے ہیں تاکہ پناہ گزین ان کے ملک میں نہ آ جائیں۔ آج کل کی ''مہذب دنیا‘‘ کے دو رُخ ہیں۔ سب امیر ظالم کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مظلوم غریب کو دھتکار دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک افسوسناک سانحہ آسڑیلیا میں پیش آیا جہاں ایک معروف مال میں ایک شخص چاقو لے کر گھس گیا اور عام لوگوں پر حملہ آور ہوگیا۔ اسلامو فوبیا میں مبتلا بہت سے لوگوں نے فوری طور پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلمان دہشت گرد لوگوں پر حملہ آور ہو گیا ہے حالانکہ یہ بات سراسر غلط تھی اور حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔ چالیس سالہ جوئیل مسیحی خاندان سے تعلق رکھتا تھا؛ تاہم وہ خود مذہب سے بہت دور‘ لادین قسم کا انسان تھا اور کافی عرصے سے ذہنی امراض میں مبتلا تھا۔ اس نے شاپنگ مال میں گھس کر زیادہ تر عورتوں کو ٹارگٹ کیا اور چاقو کے حملوں سے کئی افراد کو قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ وہاں اس نے ایک گارڈ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا‘ جو پاکستانی نوجوان تھا۔ جوئیل اتنا سفاک تھا کہ اس نے ایک نو ماہ کے بچے کو بھی نشانہ بنایا جوخوش قسمتی سے بچ گیا؛ تاہم اس کی ماں اس حملے میں ماری گئی۔ لوگ اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ جوئیل نے صرف خواتین ہی کو کیوں ٹارگٹ کیا؟ وہ لوگ جو حملہ آور کو مسلم دہشت گرد کہہ رہے تھے‘ انہوں نے اس معاملے سے سماجی تفریق کو ہوا دی اور اس سے اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا۔ ان کو اپنے اس فعل پر شرمندہ ہونا چاہیے کیونکہ ان کے جھوٹ سے مسلمانوں کے لیے نفرت پھیلی اور ان کے لیے خطرات پیدا ہوئے۔ ایسے افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والا سکیورٹی گارڈ فراز طاہر اپنی زندگی بدلنے اور روزگار کے لیے آسٹریلیا گیا تھا لیکن اجل اس کو لے اُڑی۔ اسی طرح چین سے تعلق رکھنے والی طالبہ ژی یانگ جینگ بھی اس حملے میں ماری گئی۔ ایک پولیس آفیسر ایمی سکاٹ نے حملہ آور کو گولی ماری اور وہ موقع ہی پر مارا گیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور سکیورٹی گارڈ محمد طہٰ بھی ڈیوٹی پر موجود تھے‘ ان کو بھی حملہ آور نے زخمی کیا۔ اب وہ روبہ صحت ہیں اور آسٹریلیا کی حکومت ان کو مستقل ویزہ دینے کی پیشکش کر چکی ہے۔ یہ گارڈز مسلح نہیں تھے‘ ورنہ شاید ایسی صورتحال پیش نہ آتی۔ ایک فرانسیسی شہری نے بھی لوگوں کی جانیں بچانے کی کوشش کی‘آسٹریلین حکومت نے اس کواعزازی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔
کچھ صحافی حملہ آور جوئیل کے والدین کے گھر بھی پہنچ گئے جنہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا ذہنی طور پر بیمار تھا اور یہ کہ وہ اُس کے اس عمل پر سب سے معافی کے طلبگار ہیں۔ سوچیں اگر یہ حملہ آور مسلم ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس کے گھر والے اب تک جیل میں ہوتے اور ان کو مختلف تنظیموں کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہوتا۔ جوئیل بارہ لوگوں کو زخمی اور چھ افراد کو قتل کرنے کے بعد ذہنی مریض قرار دے دیا گیا۔ جو لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہوں‘ کیا وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اتنی سکت رکھتے ہیں کہ چاقو کے ساتھ لوگوں پر حملہ آور ہو جائیں؟ جرائم کرنے والے لوگ بیمار نہیں‘ سفاک ہوتے ہیں؛ تاہم مغربی ممالک کی یہ رِیت رہی ہے کہ مسلمان اگر کوئی جرم کرے تو وہ دہشت گرد اور دیگر لوگ اگر حملہ کریں تو انہیں ذہنی بیمار قرار دے دیں۔ آسٹریلیا میں ایک اور بھی حملہ ہوا‘ اور ایک چاقو بردار شخص نے ایک چرچ میں لوگوں پر حملہ کیا جس میں ایک پادری سمیت تین افراد زخمی ہو گئے۔ مذکورہ پادری اسرائیل مخالف ہے اور اس نے حال ہی میں غزہ کے مسلمانوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ اب شاید پولیس اس حملہ آور کو بھی ذہنی مریض قرار دیدے؛ تاہم ایک ہفتے میں عام شہریوں پر دو حملے بہت تشویشناک ہیں۔
عالمی بے حسی کے ثبوت کے طور پر اسرائیل اور فلسطین کا معاملہ دیکھ لیں۔ پوری دنیا اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور صہیونی ریاست کو اس کے مظالم میں سپورٹ کررہی ہے۔ کوئی بھی نہتے فلسطینیوں کیلئے آواز بلند نہیں کر رہا۔ تمام طاقتیں اسرائیل کیساتھ کھڑی ہیں؛ عالمی میڈیا کی اہم شخصیات اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ بہت کم تعداد میں لوگ فلسطین کے مظلوموں کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ غزہ کو اسرائیل نے بمباری کرکے قبرستان بنادیا ہے لیکن ایک بھی عالمی رہنما وہاں نہیں گیا‘ الٹا عالمی شخصیات نے اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں جاکر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ چارلی ہیبڈو حملے کے وقت بھی یہی ہوا تھا کہ تمام یورپی لیڈران فرانس چلے گئے اور وہاں ایک علامتی واک کی۔ ان اقدامات سے اسلاموفوبیا مزید پھیل رہا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ امدادی کارکنان‘ صحافیوں اور عالمی تنظیموں کے اہلکاروں سمیت ہر طبقہ ہائے فکر پر حملہ کیا لیکن پوری دنیا مکمل خاموش ہے۔ میں یورپی و مغربی ممالک سے کیا گلہ کروں کہ جب مسلم ممالک بھی اسلامو فوبیا کے حوالے سے آواز بلند نہیں کرتے اور فلسطین کی حمایت کرنے کے بجائے نیوٹرل بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کے حالات ہیں۔ سرکاری سطح پر کوئی بھی فلسطین کے حق میں یا اسرائیل کے خلاف بیان دیتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر عوام فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں تو پولیس پکڑ دھکڑ شروع کر دیتی ہے۔ ان مظاہروں میں بہت کم تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں لیکن ان کا باہر آنا ہی بڑی بات ہے۔ یہ باضمیر افراد ہیں جو دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ سابق سینیٹر مشتاق احمدخان کی اہلیہ ہر ہفتے پُر امن مظاہرہ کرکے لوگوں کے ضمیر جگانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے مظاہروں میں کبھی سینکڑوں لوگ آتے ہیں تو کبھی درجنوں؛ تاہم وہ ہمت نہیں ہار رہیں اور فلسطین کا مقدمہ دنیا بھر کے سامنے لڑرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس نے انہیں بھی گرفتار کر لیا۔ ان کا جرم کیا تھا؟ کہ وہ فلسطین کے لیے گوجرانوالہ میں مظاہرہ کررہی تھیں؟پولیس نے ان سے بدتمیزی کی اور ان کے بچوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ ایک باپردہ‘ انتہائی شائستہ مزاج خاتون کے ساتھ یہ ناروا سلوک قابلِ مذمت ہے۔
یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ ہر کسی کو اپنے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا۔ کچھ کو اپنے اعمال کا صلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور کچھ کو آخرت میں نتیجہ بھگتنا ہو گا۔ اسرائیل سمیت جو لوگ‘ ریاستیں اور طاقتور آج دنیا میں مظلوموں پر ظلم ڈھا رہے ‘ ان کو بربریت کا نشانہ بنارہے ہیں‘ عنقریب ان کو اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ ظالموں کو دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ جو لوگ بھی اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے‘ مقدس ہستیوں کی توہین کرتے ہیں‘ وہ بھی جلد یا بدیر پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ ایسی بیسیوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ وقت کے ظالموں کو یہ بات سوچ لینی چاہیے کہ ان کی پکڑ کسی وقت بھی ہو سکتی ہے‘ مظلوم کی آہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔