"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ نشست خطرے میں؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 223 کے تحت خالی ہونے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی جن 21 نشستوں پر انتخابات کرائے ہیں اُن کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے رجحان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بادی النظر میں پنجاب میں رائے دہندگان پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے برعکس جولائی 2022ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو 17نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کی کامیابی کا کریڈٹ مریم نواز کو دیا جا رہا ہے۔ جولائی 2022ء میں حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ تب ان کو ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی بھاری مارجن سے شکست پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اگرچہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو پریذائیڈنگ افسران کا میجک قرار دے رہی ہے؛ تاہم اپوزیشن کے ان الزامات اور خدشات کو اُس وقت تک درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت منظرِعام پر نہیں آ جاتے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بعض پولنگ سٹیشنوں پر فارم 45 قبل از وقت مکمل کرا کے ریٹرننگ افسران کو بھجوا دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کا یہ دعویٰ اس لیے درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ فارم 45 پر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 95 کے تحت تمام پولنگ ایجنٹوں کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات موجود ہوتے ہیں۔ اب اگر پولنگ ایجنٹوں ہی نے دوسری سیاسی جماعت کے امیدواروں سے سازباز کر رکھی ہو تو پھر الیکشن کمیشن پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
پولنگ عملے کی خرید و فروخت کی بدعت بہت پرانی ہے۔ یہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دوران سامنے آئی تھی جب اس وقت کی ایک اہم سیاسی شخصیت نے اپنے حلقے کے پریذائیڈنگ افسران کو موٹر سائیکل بطور گفٹ دیے تھے جبکہ اس وقت ایک موٹر سائیکل کی قیمت 25 ہزار روپے تھی۔ ایک اور اہم سیاسی شخصیت نے پریذائیڈنگ افسران کو کار بھی بطور تحفہ دی تھی جو اُس وقت عموماً 55 ہزار روپے میں مل جایا کرتی تھی۔ اسی طرح چند دیگر سیاسی شخصیات نے غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دو‘ دو کروڑ روپے سے زائد اخراجات کیے تھے۔ ایک نامور سیاسی شخصیت نے تو اپنی الیکشن مہم میں اُس وقت بھی 15کروڑ سے زائد کے اخراجات کیے تھے۔ ان اخراجات کی خفیہ رپورٹ موصول ہونے پر صدر ضیاء الحق نے انکوائری بھی کرائی تھی لیکن حقیقت سامنے آنے کے بعد انہوں نے درگزر کیا۔ ان میں سے بعض شخصیات کا آج بھی ملکی سیاست میں طوطی بول رہا ہے۔
بھارت میں بھی ماضی میں پولنگ عملے کو رشوت دے کر اپنی کامیابی یقینی بنانے کی بدعت موجود رہی ہے لیکن وہاں یہ سب تب سے ختم ہو چکا ہے جب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال شروع ہوا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے پہلے تو بھارت میں پورے کے پورے پولنگ سٹیشنوں کو نیلامی میں خریدنے کا رواج موجود تھا لیکن اس کے باوجود تب بھی بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار تھا۔
ہمارے ہاں 1985ء‘ 88ء‘ 90ء اور 93ء کے انتخابات تک بااثر امیدواروں کی طرف سے پوری کی پوری آبادی کے ووٹروں کوراشن کے عوض خریدنے کا رواج موجود تھا۔ ووٹروں کو مخصوص ٹوکن فراہم کیے جاتے تھے جنہیں دکھا کر وہ متعلقہ دکاندار سے وافر مقدار میں راشن حاصل کر لیتے تھے اور اس کے عوض اپنا اور اہلِ خانہ کا ووٹ اُس امیدوار کے حق میں ڈال دیتے تھے۔ بعض دفعہ تو پولنگ ایجنٹوں سے بھی ڈیل ہو جاتی تھی اور وہ گنتی سے پہلے ہی میچ فکس کر کے پولنگ سٹیشنوں سے باہر آ جاتے تھے اور اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بتاتے تھے کہ انہیں زبردستی پولنگ سٹیشن سے باہر نکال دیا گیا ہے حالانکہ وہ اندر کھاتے ڈیل کر کے باہر آتے تھے۔ اب الیکشن ایکٹ کی دفعہ 95 کے تحت پریذائیڈنگ افسران کو ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد فارم 45پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط اور نشانِ انگوٹھا لینے کا پابند بنایا گیا ہے اور اگر کوئی پولنگ ایجنٹ دانستہ غائب ہو جاتا ہے تو بھی پریذائیڈنگ افسرفارم 45 پر اُس کے کوائف کا اندراج کرنے کا پابند ہے۔
ضمنی انتخابات میں پنجاب میں ہونے والے بڑے مقابلے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چودھری پرویز الٰہی کو اُن کے بھتیجے چودھری موسیٰ الٰہی نے بھاری مارجن سے شکست دی ہے جو غیر معمولی واقعہ ہے لیکن چودھری پرویز الٰہی نے انتخابی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ اس حلقے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے عملے کو زد و کوب کرنے کی وجہ سے چند پولنگ سٹیشنوں کے نتائج کو متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔الیکشن کمیشن کو اس حلقے کے الیکشن کے نتائج کو وقتی طور پر روک کر متعلقہ پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسران کے خلاف ڈسکہ رپورٹ 2021ء کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔ ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان واقعات کی خود انکوائری کرنی چاہیے۔ البتہ مجموعی طور پر ضمنی انتخابات میں پولنگ کا عمل پُرامن رہا‘ سوائے نارووال کے‘ جہاں دو جماعتوں کے کارکنوں کی ایک جھڑپ میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔
عام انتخابات ہوں یا ضمنی‘ ہارنے والے تالیفِ قلب کیلئے وجوہات تلاش کر ہی لیتے ہیں اور ان کی تنقید کا نشانہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی بنتا ہے۔ہمارے ہاں کسی بھی سطح کے انتخابات کے بعد انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ امیدوار انتخابی دھاندلیوں کے پردے میں اپنی شکست چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے موجودہ انتخابی نظام میں ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جس سے الیکشن کی شفافیت کو مزید بہتر بنایا جا سکے اور جن حلقوں میں الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں میں ریٹرننگ یا پریزائیڈنگ افسران کی نالائقی و نااہلی ثابت ہو جائے‘ اُن کے خلاف بلا تاخیر تادیبی کارروائی کرنی چاہیے۔اگر ایک بار ریٹرننگ اور پریزائیڈنگ افسران کو انتخابی بے ضابطگیوں پر سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر انتخابی شفافیت کو یقینی بنانا کچھ مشکل نہیں رہے گا۔ پھر ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ روایتی طریقے سے ہونے والے انتخابات بھی شفاف ہی ہوں گے۔
نواز شریف اِن دنوں چین کے پانچ روزہ غیر سرکاری دورے پر ہیں۔ ان کے صاحبزادے بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ شنید ہے کہ اس دورے کا مقصد چین کے سرمایہ کاروں سے مذاکرات کر کے انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس دورے کے دوران میاں نواز شریف چین کے بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹروں سے اپنے معائنے کا ارادے رکھتے ہیں جبکہ بعد ازاں وہ اپنے طبی معائنے کے لیے لندن جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف جب گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان آئے تھے تو نگران حکومتِ پنجاب نے خرابیٔ صحت کی بنیاد پر ان کی سزا معطل کر دی تھی۔ میں اس نگران کابینہ کا حصہ تھا جس نے سزا معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔تب ہنگامی طور پر کابینہ کا اجلاس منعقد کیا گیا تھااور نگران کابینہ نے محکمہ داخلہ کی سفارش پر میاں نواز شریف کے معالج ڈاکٹر عدنان کی بریفنگ کے بعد سزا معطلی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
اُدھر یہ خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ آئندہ چند روز میں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر اورنگزیب کی سینیٹ نشست کے الیکشن کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ شنید ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھ اس حوالے سے ایک ایسا باریک قانونی نکتہ آیا ہے جس سے وفاقی وزیر خزانہ کی سینیٹ نشست خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں