ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

سولر اور وِنڈ پاور کا عروج

تحریر: فرہاد مانجو

میں صرف ایک لفظ کہنا چاہتا ہوں: سورج! مجھے ایک اور لفظ کہنے دیں: ہوا۔ سورج‘ ہوا اور ان دونوں میں چھپی بے پناہ انرجی کو اپنے استعمال میں لانے کے لیے کیمسٹری کا علم ضروری ہے۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ اب شاید آنے والے دنوں میں یہی توانائی اور ٹیکنالوجی ترقی کریں گی۔ یہ بھی ہماری زندگیوں میں ایوی ایشن، انٹرنیٹ اور پلاسٹک کی طرح کی ایک انقلابی تبدیلی ثابت ہو گی۔ اس توانائی کی تیز رفتاری کے بارے میں ہم جتنا کچھ تصور کر سکتے ہیں یہ اس سے کہیں تیزی کے ساتھ فروغ پائے گی۔ قابل تجدید توانائی کے عملی استعمال کے بارے میں جتنے بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہوں مگر اب اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ توانائی کے اس شعبے میں ناقابل یقین ترقی اور پیشرفت ہو چکی ہے۔ ہماری عالمی معیشت اس معدنی تیل کی بدولت ترقی کر رہی تھی جو ہماری ماحولیات اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے مگر اب یہ ایک ایسی معیشت کے قالب میں ڈھل رہی ہے جس کی بنیادیں ایک ایسی صاف شفاف توانائی پر استوار ہو رہی ہیں جو ہمیں پانی، ہوا اور آسمانوں سے برستی ہوئی آگ سے حاصل ہو گی۔

آج کل جو لوگ بھی انرجی مارکیٹس کا مطالعہ کر رہے ہیں‘ ان سب کا یہی کہنا ہے کہ اگرچہ صرف ہماری معیشت ہی ہمارے صاف شفاف توانائی کی طر ف سفر کو یقینی بناتی ہے لیکن اگر ہماری حکومت اس کو اپنی پالیسی کی طرح اپنانے کا اعلان کر دے تو اس کے فروغ اور کارکردگی کی رفتار اس سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے دنیا بھر میں شمسی توانائی کو بجلی کی نئی سستی ترین قسم قرار دیا ہے۔ اس ایجنسی کے مطابق ’’خاص طور پر بعض پسندیدہ مقامات پر سورج سے حاصل ہونے والی توانائی اب انسانی تاریخ کی سستی ترین بجلی کا ذریعہ بن چکی ہے‘‘۔ اب تو ایسی امید کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ انسانوں میں اتنی استعداد رہ گئی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں آنے والی سنگین تبدیلیوں کو روک سکیں یا ان کا مداوا کر سکیں۔ میں اس سے پہلے بھی اسی قسم کے دلائل دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر چکا ہوں کہ اگر ہم اپنے آنے والے دنوں کو قنوطیت پسند نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ انتہائی دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ بالفاظ دیگر اگر ہم اپنے انفرادی اور قومی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے کوئی فوری عملی قدم اٹھانے کا حوصلہ کر لیں تو یہ ایک قابل تحسین فیصلہ سمجھا جا ئے گا ۔

صاف شفاف توانائی کے حصول کے مستقبل پر شکوک و شبہات کے حوالے سے بے جا بدگمانی پھیلانے کی ہزار وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں بجلی اور توانائی کی کل پیداوار کا جائزہ لیں تو آج بھی ہوا اور سورج سے حاصل ہونے والی توانائی اس کل پیداوار کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ شمسی تاوانائی کے کٹر حامی بھی یہ بات آسانی سے تسلیم کر لیتے ہیں کہ بھرپور طریقے سے قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے ابھی ہمیں اپنی سوچ اور ادراک میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ آنے والے عشروں میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ صارفین اور بزنسز کو بہت سی نئی اور منفرد ٹیکنالوجیز کو قبول کرنے اور استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اور اس کے لیے حکومت کو نیا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا پڑے گا جبکہ معدنی تیل سے متعلق کئی انرجی قوانین کو بھی اوور ہال کرنا ہو گا۔ آج بھی جب ہم ماحولیاتی تبدیلی کے ایک ناخوشگوار تجربے سے گزر رہے ہیں تو کلین انرجی ہمیں ایک نایاب امید اور جوش دلاتی ہے۔ جرأتمندانہ ٹرینڈز کی وجہ سے ہماری صنعت بڑے بڑے دعوے کرنے کی جرأت کر سکتی ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران ماہرین توانائی نے قیمتوں میں کمی، کارکردگی میں بہتری اور قابل تجدید توانائی کے تیز رفتار رجحان کے بارے میں ہمیشہ غلط اندازے قائم کیے ہیں۔ معدنی تیل جو ہم بہت مہنگے اخراجات کی بدولت زمین سے نکالتے ہیں کیونکہ اسے زمین سے نکالنے کیلئے بہت زیادہ مالی وسائل اور سخت محنت کی ضرورت ہے مگر اس کے برعکس قابل تجدید توانائی میں ہمیں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور ہم قابل تجدید توانائی کو جس قدر زیادہ مقدار میں بناتے جاتے ہیں‘ اس کی لاگت اتنی کم ہوتی جاتی ہے اور یہ ہمیں بہت سستی پڑتی ہے۔ اس سے ہمیں ایک حقیقی فلائی ویل مل جاتا ہے کیونکہ سولر پینل، ونڈ ٹربائنز، بیٹریز اور قابل تجدید توانائی کے لیے دیگر آلات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سستے ہوتے جاتے ہیں اوراس کے استعمال کا رجحان بڑھتا جاتا ہے۔ جب ان کا استعمال زیادہ ہوتا ہے تو ان کی پیداواری لاگت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔

جینی چیز‘ جو بلوم برگ کی انرجی ریسرچ فرم میں شمسی توانائی کے شعبے کا تجزیہ کرتی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے 2005ء میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا تو اس کا پسندیدہ منظر نامہ یہ ہوتا تھا کہ ہم شمسی توانائی سے جتنی بھی بجلی پیدا کر لیں وہ دنیا بھر کی بجلی کا محض ایک فیصد بنے گی۔ اس وقت شمسی توانائی دنیا بھر کی بجلی کی بہت کم مقدار بنتی تھی مگر یہ معمولی مقدار بھی اچھی خاصی محسوس ہوتی تھی۔ ’’میرا خیال تھا کہ یہ تو بہت کم شیئر ہے مگر جب میں نے اپنے کیریئر پر فوکس کیا تو پتا چلا کہ یہ واقعی دنیا کا محض ایک فیصد ہی بنتا ہے، اس پر میں نے کہا: کوئی بات نہیں یہ بھی ٹھیک ہے‘‘۔ وہ یونہی اس ڈگر پر چلتی رہیں اور حکومتی ایجنسیوں سمیت اور بھی بہت سے لوگ ان کی پیروی کرتے رہے۔ پچھلے عشرے کے وسط میں شمسی توانائی دنیا بھر کی پیدا ہونے والی بجلی ایک فیصد سے بڑھ گئی۔ اب ماہرین کا اندازہ ہے کہ شمسی بجلی کی شرح تین فیصد تک جا پہنچی ہے اور جتنا اس کا تخمینہ تھا‘ اب یہ اس سے تین گنا تک بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال جینی اور ان کے کولیگز کا اندازہ تھا کہ 2050ء تک دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کل بجلی کا کم از کم 56 فیصد حصہ ہوا اور سورج کی توانائی سے بنایا جا رہا ہوگا تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تخمینہ بہت کم ہے۔ دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب معدنی تیل کا زمانہ گزر چکا ہے۔ ان کے مطابق‘ قابل تجدید انرجی جیو پولیٹکس اور عالمی معیشت کو تبدیل کر کے رکھ دے گی جس طرح صنعتی انقلاب کے بعد تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی۔ یہ بتانے کے لیے کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا وہ ایک مثال دیتے ہیں۔ سعودی عرب میں دنیا کے تیل کے سب سے بڑے ذخیرے گاور کی روزانہ پیداواری صلاحیت چار ملین بیرل ہے۔ اگر آپ اس تیل سے بجلی پیدا کرنے کا سوچیں تو یہ ایک پیٹا واٹ آور فی سال بنتی ہے۔ (دنیا کی بجلی کی کل ضرورت 27 پیٹا واٹ آور ہے) اگرچہ گاور کا آئل فیلڈ میلوں تک پھیلا ہو ا ہے مگر ایک نہ ایک دن یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement