ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

موت ہی اٹل حقیقت ہے…(2)

تحریر: امن سیٹھی

جب مس پرکاش نے شمشان گھاٹ میں قطار در قطار چتائوں کو دیکھا تو بولیں ’’یہ تو ان فلموں کی طرح کا منظر ہے جن میں دنیا پر حملہ ہو جاتا ہے اور چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوں۔ آپ سپر ہیرو کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ آئے اور سب کو بچائے مگر کووڈ کے معاملے میں کوئی سپر ہیرو نہیں ہے‘‘۔ سپر ہیرو کے بجائے اس طرح کے معاملات میں مسٹر مہتا جیسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک سرکاری وکیل ہیں اور انہوں نے دہلی انتظامیہ کی اس شکایت کہ مودی حکومت شہرکو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں فراہم کر رہی‘ کے جواب میں عدالت میں کہا ’’کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں‘ بچوں کی طرح رونا تو نہ ڈالیں‘‘۔

ایک نجی ہسپتال کے مردہ خانے کے اسسٹنٹ بکی نے مجھے ایک اور ہی طرح کے جنازے کے بارے میں بتایا تھا ’’وٹس ایپ جنازہ‘‘ اس نے اپنا پورا نام نہیں بتایا کیونکہ اسے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب بھی کووڈ کا مریض آئی سی یو میں اپنے آخری سانس لیتا ہے تو مسٹر بکی اس کی لاش گھسیٹ کر مردہ خانے لے جاتا ہے۔ اسے وہاں لے جا کر ایک خاص شیٹ میں لپیٹتا ہے پھر اسے ایک پلاسٹک شیٹ میں ڈالتا ہے آخر میں اس پر سفید شیٹ چڑھاتا ہے اور اس کے اوپر مارکر سے لکھتا ہے کہ اس کی موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ احتیاط کے طور پر ہر چیز کو سفید سرجیکل ٹیپ سے محفوظ کرتا ہے۔ بکی نے مجھے بتایا ’’جیسے ہی کسی لاش کے لواحقین آتے ہیں تو ہم تیزی سے اس کا منہ ننگا کرتے ہیں تاکہ وہ چہرہ دیکھ کر اس کی شناخت کر سکیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فیملی ممبر باہر ہی کھڑا رہتا ہے یا کووڈ آئسولیشن میں رہتا ہے۔ ہم وٹس ایپ پر اسے وڈیو کال کرتے ہیں اور اسے لاش کا چہرہ دکھا دیتے ہیں‘‘۔ پھر بکی کی ٹیم تابوت کو ایک ایمبولینس میں ڈال کر شمشان گھا ٹ تک چھوڑنے جاتی ہے۔بکی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ میری ملاقات سرائے کالے خان کے شمشان گھا ٹ پر ہوئی تھی۔ جب ہم باتیں کر رہے تھے تو مزدور شمشان گھاٹ کی دیوار کے پاس ہی سیمنٹ اور اینٹوں سے مزید پلیٹ فارم بنا رہے تھے۔ بکی نے بتایا ’’ہم ایک وقت میں صرف دس لاشیں ہی شمشان گھاٹ کے اندر لے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ مزید پچاس لاشوں کے لیے جگہ بنا رہے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے سامنے پڑی تیس لاشیں گنی تھیں۔ بکی نے بتایا کہ ابھی بیس لاشیں پیچھے پڑی ہیں۔ بکی کے ایک اٹینڈنٹ نے بتایا کہ پچھلے کئی دنوں سے وہ خواب میں مرنے والوں کے چہرے دیکھ رہا ہے۔ ’’میں ان کے چہرے سے مخصوص کپڑا اتارکر ان کا چہرہ دیکھتا ہوں۔ میں ان کے نام تو بھول جاتا ہوں مگر ان کے چہرے پہچان لیتا ہوں‘‘۔

ایک مہینہ پہلے مجھے نچلے فلور پر ایک اپارٹمنٹ میں بلایا گیا تھا، میرا ہمسایہ جو ایئر فور س کا ایک ریٹائرڈ افسر ہے‘ گھر پر بیمار پڑا تھا۔ اسے سخت بخار تھا۔ اس کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا مگر اب وہ بے ہوش تھا۔ ہم نے ایک آکسیجن سلنڈر کی مدد سے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے بڑے بھائی نے اس کا فون کیمرہ سلنڈر کی طرف کیا وہ وٹس ایپ پر کسی کو سلنڈر دکھا رہا تھا تا کہ وہ اسے بتادے کہ سلنڈر کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس کی بیوی سخت صدمے میں تھی‘ اس نے شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: کچھ تو بولیں۔ پہلے آہستہ آہستہ اور پھر ایک دم ان کا آکسیجن لیول نیچے گر گیا۔ جلد ہی ایمبولینس آ گئی۔ ہسپتال پہنچتے ہی انہیں مردہ اور کورونا پازیٹو قرار دے دیا گیا۔ اس کے بچے‘ جو بیرونِ ملک تھے فوراً پہنچ گئے تھے مگر دو ہفتے تک اپنی والدہ سے نہ مل سکے کیونکہ وہ بھی کورونا پازیٹو تھی۔ میں نے زوم پر ان کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ ایک ہفتے بعد میں نے اپنا کووڈ ٹیسٹ کرانے کی کوشش کی مگر نہ کرا سکا کیونکہ تمام لیبارٹریز پہلے ہی سیمپلز سے بھری پڑی تھیں۔ میں ایک ہفتے کے لیے آئسولیٹ ہو گیا پھر ایک ہفتہ مزید مگر کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی۔ میرے ڈاکٹر نے قرنطینہ جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور علامات ظاہر ہونے کے لیے انتظار کرنے کا کہا۔ میں جب بھی اس ہمسائے کے دروازے کے پاس سے گزرتا ہوں تو اس کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔

 میں تین بجے غازی پور پہنچ گیا مگر زیادہ تر چتائوں کو آگ لگائی جا چکی تھی۔لکڑیا ں جمع تھیں سوگواروں نے لکڑیوں کے بنے ایک سٹریچر پر لاش کو رکھا۔ پھر پرندوں کی طرح جگہ جگہ سے گھاس پھوس اکٹھی کی اور چتا کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس سارے عمل میں بیس منٹ لگے۔ مس پرکاش فون پر رشتے داروں سے بات کر رہی تھیں کہ شاید کوئی مدد کے لیے آ جائے۔ ان کا ایک قریبی عزیز راستے میں تھا۔ مس پرکاش نے بتایا کہ وہ پچھلے بیس سال سے ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں اس لیے انہیں بھی ابو کی موت کا اتنا ہی صدمہ ہے جتنا ہمیں ہے۔ قریبی عزیز کے آتے ہی کام میں تیزی آ گئی۔اب چتا تیار تھی۔ شام کے پانچ بجنے والے تھے اور پارکنگ لاٹ ایک گنجان آبادگائوں لگ رہی تھی۔ پنڈت مشرا چتائوں میں سے گزرتے ہوئے آ رہے تھے اور مرنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات کا ورد بھی کر رہے تھے۔ قریب بیٹھی ایک عورت زور زور سے رونے لگی اور پھر لکڑی کے ایک تابوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ’’میرے ماں باپ بھی باہر انتظارکر رہے ہیں۔ یہ میرا شوہر ہے۔ یہ میرا شوہر ہے‘‘۔ پہلے ایک چتا کو آگ لگائی گئی‘ پھر دوسری کو‘ پھر تیسری کو۔ آہستہ آہستہ دعائیہ کلمات کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور آگ کے شعلے بلند ہوتے گئے۔ مجھے اپنے وہ عزیز واقارب اور دوست یاد آ رہے تھے جو گزشتہ سال ہم سے جدا ہو گئے تھے اور ہم آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ مس پرکاش اپنے والد کی چتا کے پاس کھڑی تھیں، شاید وہ کسی وٹس ایپ گروپ کے ساتھ فون پر بات کر رہی تھیں۔ قریب کھڑے ایک شخص نے لکڑیوں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’یہ میر ی ماں ہے۔ اسے کورونا نہیں تھا مگر افسوس کہ اسے بھی ان لوگوں کے درمیان ہی جلانا پڑ رہا ہے‘‘۔ اس نے شکایت کی کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو میڈیا ایسے دکھا رہا ہے جیسے ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہوں۔ اس کا مقصد صرف حکومت کو بدنام کرنا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہم اس پارکنگ لاٹ میں نہیں ہیں جہاں پچاس لاشیں رکھی ہوئی ہیں؟ اس نے کہا ’’ہاں! مگر میڈیا کو یہ کہنا چاہئے کہ پورے دن میں ایک ہی مرتبہ یہاں پچاس لاشوں کو جلایا جاتا ہے تاکہ عوام تک درست تاثر جائے‘‘۔ اسی دوران پنڈت مشرا  بتاتا ہے ’’سب یاد رکھیں کہ کل صبح آٹھ بجے راکھ لینے کیلئے آنا ہے کیونکہ ہم نے کل کی لاشوں کیلئے جگہ خالی کرنی ہے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement