ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ابھی کووڈ ختم نہیں ہوا

تحریر: اداریہ ـ نیویارک ٹائمز

شروع کے دنوں میں ہونے والے تمام تر غلط اقدامات کے بعد امریکا کی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین مہم دنیا کو سائنس اور صحت ِ عامہ کی فتح کی نوید سنا رہی ہے۔ آج سے سات مہینے قبل‘ جب کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز کے ہنگامی استعمال کی اجازت دی گئی تھی‘ تب سے 66 فیصد یا دس کروڑ امریکی شہری کم از کم ویکسین کی ایک ڈوز ضرور لگوا چکے ہیں۔ اگرچہ صدر جو بائیڈن کا 4 جولائی تک 70 فیصد امریکی شہریوں کو ویکسین لگانے کا ہدف پورا نہیں ہو سکا مگر ہم اس ہدف کے قریب تر پہنچ گئے ہیں اور اسے بجا طور پر ایک مؤثر اور معقول تعداد قرار دیا جا سکتا ہے؛ تاہم ابھی اسے مکمل فتح قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ دنیا ابھی تک ایک تیز رفتار ریس میں پھنسی ہوئی ہے جس کے ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلنے اور دوسری طرف عالمی ممالک کی ویکسین لگانے کی استعدادی صلاحیت بڑھانے میں مقابلہ جاری ہے۔ امریکا کی سرپرستی میں لگنے والی اس ریس کو بہت کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ کورونا وائرس بڑی مستعدی سے شدت پکڑ رہا ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی‘ یہ انسانی امیون سسٹم کے خلاف اپنی شکلیں تبدیل کرنے میں کامیاب ہے اور موجودہ ویکسین بھی اس کے تمام ویرینٹس کے خلاف زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو امریکا اور کوئی بھی دوسرا ملک اتنی کامیاب پیش رفت دکھانے کے باوجود مزید آگے بڑھنے کے بجائے واپسی کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

ان سنگین نتائج سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جس قدر جلد اور جتنی بڑی تعداد میں ممکن ہو سکتا ہے‘ نہ صرف امریکی بلکہ تمام عالمی ممالک کے شہریوں کو بھی‘ ویکسین لگائی جا ئے۔ اس منزل کے حصول کی راہ میں ابھی تک بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہیلتھ کیئر ورکرز نے اپنی آنکھوں سے کووڈ کی تباہ کاریوں کا سب سے پہلے اور نہایت قریب سے مشاہدہ کیا ہے مگر ان میں سے بھی کئی لوگ ابھی تک ویکسین لگوانے سے انکار کر ہے ہیں بلکہ ویکسین لازمی طور پر لگوانے کے حکم کے خلاف قانون کا سہارا لے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ویکسین لگوانے سے انکار اور ہچکچاہٹ ہی واحد مسئلہ نہیں ہے۔ کیسر فیملی فائونڈیشن کے تحت ہونے والے ایک سروے کے مطابق سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد امریکیوں کی بستیوں میں جس شرح سے کووڈ نے تباہی مچائی ہے‘ اس شرح سے ان لوگوں نے کووڈ کی ویکسین نہیں لگوائی۔ امریکا کی کُل آبادی کی شرح کے مطابق بھی ان کمیونٹیز میں ویکسین لگوانے کی شرح بہت کم ہے۔ اس تفاوت کی کئی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں مگر ایک منظم نسل پرستی اور آمدنی میں وسیع فرق سب سے زیادہ اور اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دیگر ممالک میں تو صورتِ حال اس سے کہیں سنگین شکل اختیار کر چکی ہے۔ وہاں مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ ویکسین کی مناسب مقدار دستیاب نہیں ہے بلکہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ امیر ممالک نے ویکسین سپلائی کی بڑی تعداد کی پیشگی بکنگ کرا رکھی ہے جبکہ ویکسین کے پروڈیوسرز اس مقدار کا عشر عشیر بھی نہیں بنا رہے جس کی اس وقت پوری دنیا کو ضرورت ہے؛ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا بھر میں ویکسین لگانے والوں میں ایک گہرا تفاوت پایا جا تا ہے۔ ایک طرف امریکا میں جو شہری بھی ویکسین لگوانا چاہتا ہے‘ اسے ویکسین دستیاب ہے مگر دنیا کے کئی ممالک ابھی اپنے سب سے زیادہ متاثرہ شہریوں کو بھی ویکسین نہیں لگوا سکے ہیں جن میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اور عمر رسیدہ شہری بھی شامل ہیں۔

انڈونیشیا‘ جہاں کورونا کا ڈیلٹا ویرینٹ شدت پکڑ رہا ہے‘ ابھی تک وہاں 5 فیصد شہریوں کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا سکی۔ جوں جوں کووڈ کا دوسرا سال گزر رہا ہے‘ یہ لازم ہو جائے گا کہ ہر مسئلے کا دقیق جائزہ لے کر عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت ویکسین کے حوالے سے جتنی بداعتمادی پائی جاتی ہے‘ اس کے ڈانڈے ویکسین مخالف تحریک سے جا ملتے ہیں کیونکہ اس تحریک کو ایک طرف بھرپور مالی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ویکسین کے نام پر سیاست بھی ہو رہی ہے اور میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کوششیں اس خطرناک حد تک کامیاب ہو رہی ہیں کہ ویکسین لگانے سے گریز کا رجحان کووڈ کے پھیلنے سے بھی پہلے عالمی صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آ چکا ہے؛ تاہم اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ طبقہ ان افراد کا ایک قلیل سا حصہ ہے جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی۔ امریکی عوام کی بڑی تعداد ویکسین لگوانے کی مخالف نہیں ہے مگر ان میں قدرے ہچکچاہٹ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں دلائل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن حکومت نے ویکسین کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنے اور امریکی شہریوں کو ویکسین کے فوائد سے آگا ہ کرنے کے لیے کروڑوں ڈالرز کے خرچ سے ایک نئی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ہسپانوی زبان بولنے والوں سے رابطہ کرنے کے لیے وٹس ایپ سے شراکت کی ہے اور دیگر گروپوں تک میسجز کے ذریعے رسائی حاصل کرنے کے لیے کرسچن براڈکاسٹنگ نیٹ ورک کے ساتھ شراکتی عملداری کا آغاز کیا ہے۔ یہ بہت سمارٹ اور اہم اقدامات ہیں۔

ایک اور اہم اقدام یہ ہو گا کہ حکام بالا مقامی سطح پر بھی اتنی ہی مستعدی کا مظاہرہ کریں کیونکہ اس امر کا امکان ہے کہ ویکسین کے بہترین ایمبیسیڈرز ہر دو کمیونٹیز سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ یہ تمام کوششیں جتنی بھی کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں‘ اگر باقی دنیا نے اپنے شہریوں کو ویکسین نہ لگوائی تو ان سب کوششوں کا اکارت جانا یقینی سمجھا جائے گا۔ گزشتہ دو مہینے کے دوران جو بائیڈن حکومت نے ضرورت مند ممالک کو ویکسین کی لاکھوں ڈوزز عطیہ کرنے کا اعلان اور وعدہ کیا ہے۔ بائیڈن حکومت نے گلوبل پیٹنٹ کے خاتمے کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کے بعد دوسرے ممالک اور کمپنیاں اپنے طور پر آسانی سے کورونا ویکسین بنا سکیں گی۔ یہ تمام خوش آئند اور اہم اقدامات ہیں مگر ابھی تک بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کووڈ اور اس کے بعد آنے والی کورونا وبا کو شکست دینے کے لیے امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ دنیا بھرکی ویکسین بنانے اور اسے تقسیم کرنے کی استعدا د بڑھانے کے لیے فراخدلانہ امدادی اقدامات کریں۔ اس کے لیے مشترکہ کوششوں اور دانشمند قیادت کی ضرورت ہو گی۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement