ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

درخت زندگی کے محافظ!… (1)

تحریر: کیٹرین این ہارن

درختوں کے بارے میں عمومی تصور یہی تھا کہ یہ یہاں ہمیشہ ایسے ہی کھڑے رہیں گے۔ یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی کہ ان کے پہلو میں موجود اُس بڑی عمارت کے مالکان اپنی پراپرٹی کی ازسر نو تزئین و آرائش کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ دیودار کے چار سرخ درخت ڈیس مونیز کی سرکاری زمین پر لگے ہوئے تھے۔ ڈیس مونیز امریکی ریاست آئیووا کا دارالحکومت ہے جہاں ان درختوں کو ایک صدی پہلے لگایا گیا تھا۔ شین میک قلین‘ جو شہر میں شجر کاری کے منتظم ہیں‘ نے مجھے بتایا ’’اس بات کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے کہ یہ درخت گرا دیے جائیں گے۔ ہمارے ہاں عمومی روایت یہ رہی ہے کہ ہم بڑے درخت لگانے کے لیے چھوٹے درختوں کو اکھاڑتے نہیں ہیں‘‘۔

ہم بتاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسے وقتوں میں جب ماحولیاتی تبدیلی بار بار گرمی کی شدید لہر کا باعث بن رہی ہے، یہ درخت ہمارے لیے سپر ہیروز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ریسرچ سے پہلے ہی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ امریکا میں سمندری طوفانوں اور ہوا بگولوں کے مقابلے میں گرمی کی لہر سے زیادہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں، شاید ہر سال 12 ہزار شہری اس باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شمال مغربی بحرالکاہل اور کینیڈا میں سینکڑوں افراد گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق‘ درخت اپنے ار دگرد کے ہوا کے درجہ حرارت کو 10 ڈگری تک کم کر سکتے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف ایئر کنڈیشننگ کے لیے درکار بجلی بچاتے ہیں اور ہمارے مالی اخراجات میں کمی لانے کے ساتھ آلودگی کے اخراج میں بھی کمی لانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ شدیدگرمی کی لہر کے دنوں میں بجلی کی سنگین بندش سے بچنے میں بھی ہمارے مددگار ہوتے ہیں۔

جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ماحولیاتی پلاننگ کے پروفیسر برائن سٹون کہتے ہیں ’’شہروں میں گرمی کی حدت سے بچنے کے لیے ہمارے پاس سب سے مؤثر حکمت عملی اور ٹیکنالوجی ہمارے ارد گرد لگے ہوئے درخت ہیں‘‘ چنانچہ میک قلین نے ان عمارتوں کے مالکان اور سٹی پلانرز کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ ان درختوں کو بچا کر شہری عمارتوں کی تزئین و آرائش کی جائے مگر کئی مہینے بعد ایک دن انہوں نے سنا کہ سرکاری عملہ ان درختوں کو گرانے میں مصروف ہے۔ مسٹر میک قلین بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں درخت کاٹے جا رہے تھے۔ یہ جگہ ان کے دفتر سے چند بلاکس کے فاصلے پر تھی۔ ایک درخت کو تو کاٹ کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی کر دیے گئے تھے جبکہ دوسرے درخت کو بھی گرایا جانے والا تھا۔ میک قلین نے فوری طور پر کام رکوا دیا اور ان لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے انہیں کافی پاپڑ بیلنا پڑے۔ پہلے پہل تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عملہ یہ سب کچھ خود ہی اپنے طور پر کر رہا ہے مگر تھوڑی سی تحقیق کرنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ایک غلطی کا نتیجہ ہے۔ ہوا یہ کہ ا س عمارت کو کسی ریستوران کے لیے لیز پر دے دیا گیا تھا اور لیز لینے والا شخص اس معاہدے کے مندرجات سے بالکل بے خبر تھا۔ میک قلین کہتے ہیں ’’مجھے ایک شکست خوردہ انسان ہونے کا احساس ہو رہا تھا‘‘۔ مجھے اپنی اس کوشش میں دو طرح کے نقصانا ت کا خدشہ لاحق ہو رہا تھا۔ امریکی فاریسٹ سروس کے مطابق‘ اسی طرح کی کہانیاں بوسٹن، اٹلانٹا، کلیولینڈ، شکاگو، ہیوسٹن، سپوکین اور لاس اینجلس میں بھی دہرائی جا رہی ہیں۔ پورے ملک میں نئے درخت لگانے کی دیرینہ اور مسلسل کوششوں کے باوجود امریکا میں کمیونٹیز نہ تو نئے درختوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہیں اور نہ ہی پرانے درختوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ امریکا کے شہر اور قصبات ہر سال 36 ملین درختوں کی چھتر چھائوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

ڈیس مونیز میں درختوں کی اہمیت کے پیش نظر اربن فاریسٹ کو تو بھرپور انداز میں شجر کاری مہم چلانی چاہئے تھی۔ یہاں کے میئر‘ جو عرصے سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ خود بھی ایک ماہر ماحولیات ہیں۔ پبلک ورکس کے ڈائریکٹر بھی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ یہ درخت ہی ایسا انفراسٹرکچر ہیں جس کی قدر وقیمت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک غیر منافع بخش گروپ‘ جو یہاں شجر کاری کرنے کے علاوہ درختوں کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے‘ نئے لوگوں کے لیے گرین ملازمتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ٹین ایجرز کے لیے ٹریننگ کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک رنگ برنگے کیڑے بیٹل کا لاروا سمندر پار سے امریکا پہنچا ہے اور اس نے 8000 ایش کے سرکاری درختوں میں سے 6000 درختوں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ پچھلے سال آنے والے ایک تباہ کن سمندری طوفان نے 500 درخت گرا دیے تھے۔ درختوں کے نقصان کا یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے، کبھی پانی کے زیر زمین پائپس کی مرمت کے نام پر اور کبھی گھر کا مالک اپنے گھر میں توسیع اور تعمیر کے نام پر یا اپنے لان میں سورج کی دھوپ لانے کے نام پر‘ الغرض بے شمار درخت نئی تعمیرات کی آڑ میں ان کی زد میں آ چکے ہیں۔ ان میں سے کئی طویل عرصے کے پروردہ درخت ہوتے ہیں جن کی چھتر چھائوں بننے میں کئی عشرے لگے تھے اور اب ان کے دوبارہ اس حالت تک پہنچنے میں بھی کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔یہاں سوکھی شاخوں والے بھی درخت تھے جن کی موت کی وجہ کا اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں ہے۔ انہیں زیادہ پانی نہیں مل سکا تھا۔ شدید موسم سرما کے ساتھ ساتھ زمینی نمکیات میں اضافہ ان کی موت کا باعث بن گیا۔ فلپ راڈبیل ایک فاریسٹ سروس چلاتے ہیں اور ان کی ٹیم شہری شجر کاری کے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی اثرات کا مطالعہ کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’شہروں میں شجرکاری کی بھرپور مہم چلانا ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی شہروں کو آج کل پے درپے گرمی کی شدید لہروں کا سامنا بھی ہے۔ زیادہ بڑی لہریں وہ ہوتی ہیں جن کا درجہ حرات زمین کے مجموعی درجہ حرارت سے دو گنا ہو جاتا ہے۔

جون کی ایک سہ پہر‘ جب گرمی اپنے عروج پر تھی‘ چودہ سالہ کیارا رائٹ ڈیس مونیز کی ایک مصروف سڑک پر لگے شہد کی مکھیوں کے ایک چھتے میں پھنس گئی تھی۔ وہ اس وقت بڑی احتیاط سے پانچ پانچ گیلن والی پانی کی بوتلوں کی مدد سے خشک زمین کو پانی دے رہی تھی۔ ان دنوں شہر خشک سالی کا شکار تھا جبکہ نئے لگائے جانے والے درختوں کو خاص طور پر شروع کے دو سال پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس سال موسم بہار میں کیارا نے 500 نئے درخت لگانے میں مدد کی تھی۔ وہ پودے اسے اس قدر پسند تھے کہ اس نے ان میں سے کئی ایک کے نام بھی رکھے ہوئے تھے۔ آج کل وہ 10 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے ان درختوں کو پانی دیتی ہے اور اردگرد اگی ہوئی فالتو جڑی بوٹیوں کو بھی تلف کرتی ہے۔ اس موسم گرما تک وہ اور اس کی ٹیم بڑی حد تک مالیاتی آگہی کے علاوہ لوگوں کو گرین جاب دینے کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھ جائیں گی۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement