ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

سائنس بھی بھارتی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی …(1)

تحریر: کرن دیپ سنگھ

بھارتی حکومت کی تسلیم شدہ اور حساب کتاب پر مبنی پیشگوئی بری طرح غلط ثابت ہوگئی۔ ستمبر 2020ء میں کووڈ کی دوسری مہلک لہر آنے سے 8 مہینے قبل‘ حکومت کے مقرر کردہ سائنسدانوں نے کہا تھاکہ کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلنے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے ایک سٹڈی میں لکھا تھا کہ فوری لاک ڈائون کی وجہ سے پہلی لہر کا انفیکشن اور وائرس کا پھیلائو بہت کم ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال جب یہ سٹڈی جاری کی گئی تو بھارتی نیوز میڈیا نے اس کی بھرپور کوریج کی تھی۔ ان نتائج کو بڑی مہارت سے وزیراعظم نریندر مودی کے دو اہم اہداف کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اول: بھارت کی تباہ حال معیشت کا از سر نو آغازکرنا، دوم: موسم بہار میں ریاستی الیکشن میں ان کی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز کرنا۔ مگر انوپ اگروال‘ جو پیشے کے لحاظ سے ایک فزیشن ہیں اور بھارت کی اعلیٰ ترین سائنسی ایجنسی میں کام کر رہے ہیں، کی ایجنسی نے ہی اس سٹڈی کا ریویو اور اسے شائع کیا تھا مگر انہیں یہ تشویش لاحق تھی کہ اس سٹڈی کے نتائج بھارت کو ایک جھوٹ پر مبنی تحفظ اورسلامتی کے احساس میں مبتلا کر دیں گے۔

ڈاکٹر اگروال اکتوبر میں اپنی تشویش کو ایجنسی کے اعلیٰ ترین حکام کے نوٹس میں لے کر بھی آئے۔ اس پر یہ رد عمل آیا کہ ان سمیت ایک اور سائنسدان کی سخت سرزنش کی گئی۔ کووڈ کی دوسری تباہ کن لہر جس کے دوران ہزاروں (بعض ذرائع کے مطابق لاکھوں) بھارتی شہری لقمہ اجل بن گئے تھے‘ کے بعد بہت سے بھارتی لوگوں نے استفسار کیا کہ مودی حکومت نے کس طرح ایک سخت وارننگ کو نظر انداز کر دیا تھا؟ موجودہ اور سابق حکومت کے ریسرچرز اور ان دستاویزات‘ جن کا نیویارک ٹائمز نے بھی ریویو کیا تھا‘ کے مطابق سینئر حکام نے اہم اداروں کے سائنسدانوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ کووڈ کی ہلاکت آفرینی کو گھٹا کر بتائیں تاکہ مودی حکومت کے سیاسی اہداف کو ترجیحی بنیاد پر حاصل کیا جا سکے۔ ڈاکٹر اگروال کا کہنا ہے کہ سائنس کو عوام کی مدد کرنے کے بجائے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریسرچرز اور دستاویزا ت کے مطابق‘ ڈاکٹر اگروال کی ایجنسی ’’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘‘ نے خطرات کی نشاندہی کرنے والے ڈیٹا کو ہی دبا دیا تھا۔ حکام نے سائنسدانوں پر ایک اور سٹڈی کو بھی واپس لینے کیلئے دبائو ڈالا تھا جس میں حکومتی اقدامات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ریسرچرز کے مطابق‘ اس کے ساتھ ہی ایجنسی کو اس تیسری سٹڈی سے بھی الگ کر دیا گیا تھا جس کا مقصد کووڈ کی دوسری لہر کا جائزہ لینا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں سائنس دانوں نے خا موش رہنے کے کلچر کا بھی ذکر کیا تھا۔ ریسرچرز کو خدشہ تھا کہ ا گر انہوں نے اپنے اعلیٰ حکام سے سوالات پوچھے تو انہیں پروموشنز کے چانس سے محروم کر دیا جائے گا۔ بھارت کے اعلیٰ ترین ماہر وبائی امراض اور سابق حکومت کے ایک مشیر شاہد جمیل‘ جو اس ایجنسی کے ناقدین میں شامل ہیں‘ کا کہنا تھا ’’سائنس ایسے ماحول میں نشو و نما پاتی ہے جہاں آپ ثبوت کے بارے میں کھل کر سوال کر سکیں اور غیر جذباتی اور بامقصد انداز میں اس پر بحث کر سکیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس وقت یہی بات ہر سطح پر نظر انداز کی جا رہی ہے‘‘۔ سرکاری ایجنسی نے ان تفصیلی سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اپنے بیان میں اس نے کہا ’’وہ ایک اہم ریسرچ آرگنائزیشن ہے جس نے بھارت کی ٹیسٹنگ کی استعداد میں قابل قدر اضافہ کیا ہے‘‘۔ ایجنسی کی نگرانی کرنے والی بھارتی وزارتِ صحت نے بھی کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

بھارت شاید پہلا ملک ہے جہاں وائرس کی سائنس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اگرچہ امریکا میں بھی سیاست دانوں اور ویکسین کے مخالفین نے ڈس انفارمیشن اور میڈیا کی مدد سے کووڈ کی شدت کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی جہاں ویکسین لگوانے اور ماسک پہننے کی افادیت پر سائنٹفک اتفاقِ رائے کو چیلنج کیا گیا مگر بھارت اس پر بھی بازی لے گیا۔ چینی حکومت نے بھی کووڈ سے متعلق معلومات پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ویکسین کے ناقدین کو سپین سے لے کر تنزانیہ تک‘ اپنے حامی مل گئے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے جہاں صحت عامہ کے شعبے کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور اسے کووڈ کی دوسری لہر کو روکنے میں کافی مالی مشکلات پیش آتیں۔ ایک تیزی سے پھیلنے والے نئے ویری اینٹ نے اس کے وار تیز کر دیے۔ لوگوں نے ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے کی وارننگ کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ بھارتی جنتا پارٹی کے ایک رکن وجے چوتھائی والا کے الفاظ میں ’’وزیراعظم نریند مودی نے تو کبھی حفاظتی اقدامات کم کرنے کے لئے نہیں کہا‘‘۔ پھر بھی حکومت نے صورتِ حال کو تسلی بخش رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کووڈ کی دوسری لہر شروع ہونے سے چند مہینے قبل جنوری میں نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے انسانیت کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ اس وقت کے وزیر صحت ہرش وردھان نے مارچ میں کہا تھا کہ ملک میں کووڈ کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ آئی سی ایم آر نے‘ جو حکومت کی طرف سے ریسرچ منعقد کرتی اور اس کا ریویو کراتی ہے‘ ایسا تاثر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بھارت نے کورونا وائرس کے پھیلائو سے متعلق اپنا ڈیٹا جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے سائنسدانوں کو سٹڈی کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اسی دوران ایجنسی ایسی ممکنہ قیاس آرائیاں بھی کرتی رہی جس سے ملک میں بحث میں تیز ی آ جاتی۔

اس ساری صورت حال سے آگاہ سائنسدانوں کے مطابق‘ بھارتی سیاست نے گزشتہ سال ہی ایجنسی کی اپروچ کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ نریندر مودی کے قومی سطح کے لاک ڈائون کے نفاذ کے عین وسط یعنی اپریل 2020ء میں حکومت نے ایک تبلیغی اجتماع پر یہ الزام لگا دیا کہ اس کی وجہ سے کورونا پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ہندو قوم پرستوں نے‘ جو نریندر مودی کے کٹر حامی سمجھے جاتے ہیں‘ مسلمانوں پر شدید حملے شروع کر دیے تھے۔ بھارتی میڈیا میں بھی مسلمانوں کو ہی معطون ٹھہرایا جا رہا تھا۔ غصے اور اشتعال کی اسی فضا میں سائنس ایجنسی نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کے اس اجتماع نے کووڈ کی روک تھام کی کوششوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ ایک نیوز آئوٹ لیٹ نے ایجنسی کے سورس کی وساطت سے یہ کہنا شرو ع کر دیا کہ اس اجتماع نے لاک ڈائون سے ملنے والے تمام فوائد کو زیرو کر دیا ہے۔ اس وقت کے چیف سائنٹسٹ رامن گنگا کھیڈکر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تبلیغی اجتماع پر الزام تراشی میرے لیے غیر متوقع اور حیرانی کا باعث ہے۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement