ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی ورکرز کی بغاوت

تحریر: پال کرگمین

تمام مضبوط معیشتیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور تمام کمزور معیشتیں اپنے انداز میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ 2008 ء کے معاشی بحران کے بعد ہر معیشت کو نامناسب مطالبات کا سامنا تھا۔ہائوسنگ کی صنعت زبوں حالی کا شکار تھی۔صارفین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کچھ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔اوباما حکومت نے طلب بڑھانے کے لیے جو ترغیبات دی تھیں وہ ناکافی اور مختصر مدت کے لیے تھیں۔ اس کے برعکس 2021ء میں ہمارے بہت سے مسائل کا تعلق نامناسب سپلائی سے ہے۔اشیائے صرف اپنے گاہکوں تک نہیں پہنچ رہیں کیونکہ بندرگاہیں بندہیں،سیمی کنڈکٹر چپس کی قلت کی وجہ سے آٹو انڈسٹری کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔بہت سے مالکان بھی شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے لیے ورکرز ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ صورتِ حال زیادہ تر عارضی ہے،امید ہے کہ سپلائی چین میں خرابی کچھ دیر تک ختم ہو جائے گی؛ تاہم بنیادی تبدیلی کا سامنا لیبر مارکیٹ کو ہے۔عرصے سے متاثر امریکی ورکرز‘ جنہیں کم معاوضہ ملتا تھا اور کام زیادہ کرنا پڑتا تھا‘کے لیے یہ صورتِ حال برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔

سپلائی چین کے ایشوز کے حوالے سے یہ ادراک ہونا ضروری ہے کہ ماضی کے مقابلے اب زیادہ اشیائے صرف امریکی عوام تک پہنچ رہی ہیں۔اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ بڑھتی ہوئی ڈلیوریز کے باوجود سسٹم غیر معمولی طلب پوری کرنے سے قاصر ہے۔ جب یہ مسئلہ شروع ہوا تو پہلے لوگوں نے زیادہ سروسز کی بندش کی وجہ سے گروسری کی اضافی خریداری کر لی تھی۔جو لوگ ہوٹلوں میں کھانا نہیں کھا سکتے تھے انہوں نے اپنے کچن دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جو لوگ جم نہیں جاسکتے تھے انہوں نے ورزش کے آلات خرید کر گھر پر ہی ایکسرسائز شروع کر دی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرح کے گھریلو سامان سے لے کر الیکٹرونکس تک کی خریداری میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا۔اس سال کے شروع میں اشیائے صرف کی خریداری میں کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد تک اضافہ ہو گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے لیکن حالات میں بہتری آئے گی۔جیسے ہی کووڈ کی شدت میں کمی آئی اور زندگی دوبارہ نارمل صورت حال کی طر ف لوٹی تو صارفین روزمرہ اشیائے صرف کم اور سروسز کی زیادہ خریداری کریں گے تو بندرگاہوں،ٹرکوں اور ریلوے پر دبائو میں کمی آئے گی۔

اس کے برعکس‘ سپلائی میں حقیقی کمی کی طرح لیبر مارکیٹ کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں ملازمتوں کی کل تعداد آج بھی 5 ملین سے کم ہے۔ہوٹل اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں آج بھی 9 فیصد ملازمتیں کم ہیں مگرجس شعبے پر بھی نظر ڈالیں‘ لیبر مارکیٹ کی صورتِ حال زیادہ سنگین ہے۔ ایک طرف ورکرز غیر معمولی طور پر اپنی ملازمتوں کو خیر باد کہہ رہے ہیں جو اس امر کی غمازی ہے کہ انہیں نئی ملازمتیں ملنے کا پورا یقین اور بھروسہ ہے۔دوسری طرف بزنس مالکان نہ صرف لیبر کی قلت پر شور مچا رہے ہیں بلکہ وہ زیادہ تنخواہوں کا لالچ دے کر بھی ورکرز کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہوٹل انڈسٹری کے ورکرز کی تنخواہوں میں 18 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اورکووڈ سے پہلے کی نسبت آج بھی یہ رجحان جاری ہے۔سیلرز کی لیبر مارکیٹ نے ان یونین ممبرز کے حوصلے بھی بڑھا دیے ہیں جو نامناسب کنٹریکٹس کی آفر ہونے پر ہڑتال پر جانے کے لیے پر تول رہے ہیں مگر ہم ایسے تجربے سے کیوں گزر رہے ہیں جسے سب لوگ گریٹ ریزیگنیشن (بڑی تعداد میں ملازمتیں چھوڑنا) کہتے ہیں ؟ ماضی قریب تک قدامت پسند الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ بیروزگاروں کو بہت زیادہ فوائد دیے جا رہے ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان فوائد کی وجہ سے ملازمت قبول کرنے والوں کو ان نوکریوں میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی مگر جن ریاستوں نے یہ فوائد منسوخ کر دیے تھے‘ ان میں بھی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں ملازمتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔گزشتہ مہینے جب قومی سطح پر یہ اضافی فوائد منسوخ کیے گئے‘ اس سے بھی ملازمتوں کی صورتحال پر کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس یہ ہوا ہے کہ کووڈ نے امریکی شہریوں کی اکثریت کو اپنی زندگیوں کا از سر نو جائزہ لینے کا موقع فراہم کر دیا ہے اور اب وہ خود سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہم میں سے اکثر جو ملازمتیں کر رہے تھے‘ کیا وہ اس قابل تھیں کہ انہیں جاری رکھا جاتا۔ امریکا ایک ایسا امیر او رمتمول ملک ہے جو اپنے ورکرز کی اکثریت کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر تا ہے۔ورکر ز کے معاوضے انتہائی کم ہیں،ان میں اضافے کو افراطِ زر کے نام پر ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے،خاص طور پر مرد ورکرز نے 2019ء میں بھی اتنے پیسے نہیں کمائے جتنے ان کے ہم منصب  آج سے چالیس سال پہلے کما رہے تھے۔ امریکا اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں چھٹی کا کوئی تصور نہیں۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یہاں ورکرز کوبہت کم چھٹی ملتی ہے۔کا م بھی مستقل کے بجائے عارضی طو رپر ملتا ہے۔ کام ملتا بھی ہے تو اس کا معاوضہ بہت کم ملتا ہے ‘ سفید فام کے علاوہ تو کام بھی بہت کم ملتا ہے۔ جنہیں کام ملتا ہے تو ان کے کام کرنے کے اوقات اتنے متنوع ہیں کہ اس سے ورکرز کی فیملی زندگی تبا ہ ہو جاتی ہے۔

یہ صرف بزنس مالکان ہی نہیں‘ جو اپنے ورکرز کے ساتھ بدسلوکی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد ہے جو لیبر کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کرتی ہے ۔ ایک سروے میں 62 فیصد ریستوران ورکرز کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے گاہکوں کی جانب سے انتہائی ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تلخ حقائق کی موجودگی میں یہ امر حیران کن نہیں کہ بہت سے ورکرز اپنی ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں۔بڑا مشکل سوال یہ ہے کہ ایسا اس وقت ہی کیوں ہو رہا ہے؟ بہت سے امریکی آج سے دو سال پہلے بھی اپنی ملازمتوں کو ناپسند کرتے تھے مگر انہوں نے اس وقت کبھی ایسے جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا جیسا کہ وہ اس وقت کر رہے ہیں۔آخر کیا تبدیلی آگئی ہے؟ یہ محض قیاس آرائی ہو سکتی ہے مگر اس با ت کا بھی قوی امکان ہے کہ جہاں کووڈ نے بہت سے امریکیوں کی زندگیوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے وہیں ان کی اکثریت کو اپنی زندگی کے چوائسز پر نظر ثانی کرنے کا بھی موقع مل گیا۔ہر شخص اپنی ناپسندیدہ ملازمت چھوڑنا افورڈ نہیں کر سکتا مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی نئی جگہ قسمت آزمائی کرنے کا رسک قبول کر لیتے ہیں۔انہوں نے مالی نقصان ہونے کے باوجود ملازمت سے ریٹائر منٹ لے لی ہے اور وہ کسی دوسری انڈسٹری میں کسی من پسند ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

ان حالات میں جب ورکرز کے پاس ایک چوائس موجود ہے او ر وہ خود کو مقتدر سمجھ رہے ہیں اس سے صارفین اور بزنس مالکان کی زندگیوں میں مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ ایک اچھی علامت ہے۔امریکی ورکر ز ایک بہتر ڈیل پراصرار کر رہے ہیں اور یہ بات امریکی قوم کے حق میں ہے کہ انہیں یہ ڈیل مل جائے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخا ب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement