ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکا میں ڈیلٹا وائرس میں کمی …(2)

تحریر: ایمیلی انتھیس

رویوں میں تبدیلی کورونا وائرس کیسز میں کمی لانے کا ایک عارضی اور مختصر سا طریقہ ہو سکتا ہے جبکہ کووڈ میں حقیقی کمی صرف امیونٹی کے ذریعے ہی آئے گی۔ جب کورونا وائرس کی ویکسین عام دستیاب ہو گئی اور بالغ شہریوں کو وائرس کے خلاف تحفظ مل گیا تو اس کے بعد پہلی مرتبہ قومی سطح پر ڈیلٹا وائرس کا پھیلائو منظر عام پر آیا۔ جس نے بہت سے امریکی شہریوں کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا۔ یہ ویری اینٹ اتنا متعدی تھا کہ اس نے پوری پوری آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی وجہ سے ان لوگوں میں بھی امیونٹی بڑھ گئی جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ اگرچہ نہ ویکسین اور نہ ہی پہلے سے موجود انفیکشن وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ یہ صرف وائرس سے متاثر ہونے کے چانسز کو کم کرتے ہیں؛ چنانچہ ستمبر کے مہینے تک وائرس کو مہمان نواز میزبان ملنا مشکل ہو گئے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیفری شامن کہتے ہیں ’’اب ڈیلٹا کے انفیکشن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے‘‘؛ تاہم کووڈ کیسز میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکا ’’ہرڈ امیونٹی‘‘ کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یہ ایسا ہدف ہے جہاں تک کئی سائنسدانوں کے خیال میں پہنچنا ممکن نہیں ہے؛ تاہم انفیکشن کیسز اور ویکسی نیشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں میں تبدیلی سے کووڈ کیسز میں کمی لانا ممکن ہو سکتا ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جوشوا سالومن کہتے ہیں ’’یہ امیونٹی اور لوگوں کے محتاط رویے کا امتزاج ہے‘‘۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مختلف عوامل کا امتزاج ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے مگر اس امتزاج سے ہی یہ طے ہو گا کہ وائرس میں کب اور کیونکر کمی آ سکتی ہے۔ کووڈ کی لہروں میں مختلف اضافوں کا انحصار اس امر پر ہو گا کہ اس سے پہلے کتنی بڑی لہریں آتی رہی ہیں اور اور جب سکول دوبارہ کھولے گئے تھے تو اس وقت تک کتنے لوگوں کو ویکسین لگ چکی تھی۔

یہاں ہمیں کچھ عمومی عوامل کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کیونکہ تھوڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر کووڈ پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس کی بائیو سٹیٹیشین کرسٹینا ریمریز کہتی ہیں ’’10 سے 20  فیصد لوگ 80 سے 90 فیصد تک لوگوں میں انفیکشن پھیلانے کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دو مختلف کمیونٹیز خود کو دو انتہائی مختلف ماحول میں پا سکتی ہیں اور اس کی وجہ محض یہ ہوگی کہ انفیکشن سے شدید متاثرہ ایک شخص نے اگرکسی پُرہجوم اِن ڈور ایونٹ میں شرکت کی تو ہر طرف کورونا وائرس پھیل جائے گا۔ 

آنے والے دنوں میں کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا بہت مشکل ہے؛ تاہم سائنس دانوں نے وارننگ جاری کی ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کیسز میں کمی کا سلسلہ مسلسل جاری رہے۔ برطانیہ اور اسرائیل‘ جہاں امریکا سے بھی زیادہ شہریوں کو ویکسین لگ چکی ہے‘ ابھی تک کووڈ کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی آف منیسوٹا کے سنٹر فار انفیکشیئس ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر مائیکل آسٹرہام کہتے ہیں ’’یہ ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔ ہمیں چار جولائی سے پہلے والے مائنڈ سیٹ کی طرف دوبارہ نہیں جانا چاہئے جب ہرکوئی یہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا کہ اب کووڈ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے‘‘۔

زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس موسم خزاں یا موسم سرما میں جب لوگوں نے زیادہ وقت گھروں کے اندر گزارنا اور چھٹیوں میں زیادہ سفر کرنا شروع کر دینا ہے‘ اس کے بعد اگر ایک بار پھر کووڈ کیسز میں اضافہ ہو گیا تو یہ بات زیادہ باعث حیرت نہیں ہو گی مگر چونکہ ویکسین اس لحاظ سے انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے کہ اس کے بعد مریضوں کے ہسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے؛ چنانچہ اس موسم سرما میں کووڈ کی صورتِ حال اتنی سنگین نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر سالومن کہتے ہیں ’’اس مرتبہ اتنی تباہی نہیں ہو گی جتنی ہمیں گزشتہ موسم سرما میں دیکھنے کو ملی تھی بشرطیکہ ہمارا بدقسمتی سے کسی نئے ویری اینٹ سے پالا نہ پڑ جائے‘‘۔

نئے ویری اینٹ کے پھیلنے کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ ویکسی نیشن سے ملنے والے تحفظ کے بعد یہ اتنا نہ پھیلے۔ اس بے یقینی کی ایک بڑی وجہ ہمارا اپنا رویہ بھی ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف میساچیوسٹس کے بائیو سٹیٹیشن نکولس ریچ کے مطابق ’’کووڈ کے نئے ویری اینٹ کے بارے میں پیش گوئی کرنا ایسے نہیں ہے جس طرح ہم موسم کی پیش گوئی کر سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارا واسطہ انسانی رویوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ محکمۂ صحت کے حکام کی طرف سے کس طرح کی نئی پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف عوام کا رد عمل کیسا آتا ہے، سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں کس قسم کے ٹرینڈز چلتے ہیں، اس طرح ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے‘‘۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہمارا اپنا رویہ ہمارے کنٹرول میں ہوتا ہے اور جیسے ہی ہم موسم سرما میں پہنچتے ہیں تو ہمارے رویوں میں بھی تغیر آ جاتا ہے۔ عام طور پر وہ یہ مشورہ نہیں دیتے کہ آپ اپنی چھٹیوں کا پہلے سے طے شدہ پلان منسوخ کر دیں۔ اکثر لوگ خود ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی چھٹیاں اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ مل کر گزاریں گے مگرسائنسدان اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ہمیں معقول حد تک حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے۔ ابھی تک ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ اگر ہم نے ویکسین نہیں لگوائی تو ’’تھینکس گیونگ‘‘ کی آمد سے پہلے پہلے ویکسین لازمی لگوا لیں اور اگر ہمارے کسی عزیز و اقارب نے بھی ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی توان کی بھی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں بھی ویکسین لگوا دیں۔

کووڈ کے ماہرین کہتے ہیں کہ انتہائی رسک والے موقع پر ماسک پہننا، جب موسم اچھا ہو تو آئوٹ ڈور میں فنکشن منعقد کرانا اور چھٹیاں منانے سے پہلے کووڈ کے بار بار ٹیسٹ کرانا ایسے اقدامات ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم کووڈ کیسز میں خاطرخواہ کمی لا سکتے ہیں۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف سسکیچوان کی ویکسین اینڈ انفیکشیئس ڈیزیز آرگنائزیشن کی ماہر وبائی امراض انجیلا ریسمسن کہتی ہیں ’’اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس موسم سرما میں کرسمس پر لاک ڈائون نمبر 2 لگا دیا جائے؛ تاہم اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس امر کا پورا ادراک ہونا چاہئے کہ ابھی کووڈ کا وائرس دنیا سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement