ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران کے جوہری پروگرام میں پیش رفت …(1)

تحریر: ڈیوڈ سینگر

گزشتہ 20 مہینوں کے دوران اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں نے ایران کے چیف نیوکلیئر سائنسدان کو قتل کیا اور اس کی چار ایٹمی اور میزائل تنصیبات میں دھماکے کرائے تاکہ ایٹمی ایندھن بنانے والے سینٹری فیوج پلانٹس کو تباہ کر دیا جائے اور ایران کی نئی حکومت کے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے میں مزید تاخیر ہو؛ تاہم امریکی انٹیلی جنس حکام اور انٹرنیشنل انسپکٹرز کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو بڑی تیزی سے بحال کر لیا ہے۔ اس نے زیادہ تر نئی مشینری نصب کی ہے جو کہیں تیز رفتاری سے یورینیم کی افزودگی کر سکتی ہے۔ ایک پلانٹ جو سینٹری فیوج کے اہم پرزے بناتا تھا‘ اس میں گزشتہ موسم بہار میںہونے والے دھماکوں سے لگتا تھا کہ سب کچھ تباہ ہو گیا ہے کیونکہ اس میں انٹرنیشنل انسپکٹرز کے نصب کردہ کیمرے، سنسرز اور دیگر آلات بھی مکمل تباہ ہو گئے تھے مگر اس پلانٹ میں موسم گرما کے آخر تک پروڈکشن دوبارہ شروع ہوگئی تھی۔

ایک سینئر امریکی عہدیدار نے اسے ایران کا ’’Build Back Better‘‘ پلان قرار دیا ہے۔ یہ اقدام اور جوابی اقدام حالیہ مہینوںمیں ایران اور مغرب کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی کی محض ایک جھلک ہے۔ امید ہے کہ اس محاذ آرائی کا جلد ہی ویانا میں کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکل آئے گا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے موسم گرما میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد ایرانی سفارت کار اس مہینے کے آخر میں پہلی مرتبہ اپنے ہم منصب چینی، روسی اور یورپی حکام سے ملاقاتیںکریں گے جن میں 2015ء میں ہونے والے اس معاہدے پر تفصیل سے بات چیت ہو گی جس نے ایرانی سرگرمیوں کو بڑی حد تک محدود کر دیا تھا۔ پس پردہ بات چیت سے آگاہ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے بار بار اسرائیلی حکام کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اس طرح حملے کرنے سے ممکن ہے کہ تکنیکی اعتبار سے اس کی تسلی ہو جاتی ہو مگر اس کے جوابی نتائج تو بہرصورت سامنے آئیں گے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ہمارا ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا موقع دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ہمیں ایسی وارننگ کی کوئی پروا بھی نہیں ہے جس سے ایران کی اپنے پروگرام کی رفتار تیز کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ طاقت کے بجائے سفارت کاری استعمال کرنے کے فوائد کے معاملے میں امریکا اور اسرائیل کی اپروچ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ویانا میں ہونے والی ملاقاتوںمیں امریکی حکام اس شہر میں تو موجود ہوں گے مگر ملاقات کے کمرے میں نہیں ہوں گے کیونکہ تین سال قبل امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2015ء میں ہونے والے اس ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے اعلان کے بعد ایران اس کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرنے سے انکاری ہے؛ تاہم پانچ مہینے قبل ان حکام کو امید کی ایک کرن نظر آئی تھی کہ شاید یہ معاہدہ پھر سے بحال ہو جائے۔ اگرچہ معاہدے کے متن پر عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے مگر جون میں واپس جانے کے بعد اس وقت امریکی حکام زیادہ مایوس نظر آ رہے ہیں۔ اب معاہدے کا متن بالکل ڈیڈ نظر آتا ہے اور صدر جوبائیڈن کا اقتدار کے پہلے ہی سال اس معاہدے میںدوبارہ شمولیت کا وژن پہلے سے زیادہ مضبوط ہونے کے بجائے کہیں گم ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔

فی الحال ایران کا موڈ اس قدر بدلا ہوا نظر آ رہا ہے کہ اس کے چیف مذاکرات کار علی باقری کانی اس بات چیت کو جوہری امور پر مذاکرات کہنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ نائب وزیر خارجہ علی باقری کانی نے اس مہینے پیرس میں کہا تھا ’’ہم جوہری پروگرام پر کوئی مذاکرات نہیں کر رہے‘‘۔ بلکہ انہوں نے اسے ’’غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیاں ہٹانے کے بارے میں‘‘ ہونے والے مذاکرات کہا تھا۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ ایٹمی اور غیر ایٹمی پابندیاں ہٹانے پر زور دے گا اور وہ اس امر کی بھی ضمانت چاہتا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی صدر یک طرفہ طور پر معاہدے کو منسوخ نہ کر سکے جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ بائیڈن حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائیں گے۔ ایران ہمیشہ کی طرح اس بات کی تردید کر رہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے مگر شاید وہ اتنی صلاحیت ضرور حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اسے جب کبھی ضرورت پڑے وہ ہفتوں یا مہینوں میں ایٹمی ہتھیار بنا سکے۔ سرکاری سطح پر امریکا کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے ویانا مذاکرات میں سخت گیر موقف اپنایا تو وہ نئی پابندیاں لگانے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔

ایران کے بارے میں امریکی وزارتِ خارجہ کے نمائندے رابرٹ مالے نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس وقت یہ ایران نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کون سا راستہ اپنائے گا مگر امریکا اور ا س کے اتحادیوںکواس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ ایران کون سا آپشن استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن‘ دونوں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر سفارتکاری ناکام ہو گئی تو ہمارے پاس اور بھی آپشنز ہیں اور ہم ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے مگر وائٹ ہائوس کے اندر حالیہ دنوں میں اس امر پر غور ہو رہا ہے کہ کیا کوئی ایسا عبوری معاہدہ ممکن ہے جس کی مدد سے ایران کو مزید افزودہ یورینیم کی پیداوار اوراس ایٹمی فیول کو میٹیلک شکل میں تبدیل کرنے سے روکا جا سکے کیونکہ ایٹمی ہتھیار جوڑنے کا یہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں امریکا محدود تعداد میں پابندیاں نرم کر سکتا ہے۔ اس سے مسئلہ حل تو نہیں ہوگا؛ تاہم اس سے مذاکرات کرنے کے لیے مناسب وقت ضرور مل جائے گا جبکہ اسرائیل کو بھی ایران پر کسی قسم کی بمباری کرنے سے روکا جا سکے گا۔

امکان یہی ہے کہ مزید وقت حاصل کرنا ضروری ہو گا۔ جوبائیڈن حکومت کے مشیروں کو یقین نہیں ہے کہ اگر ہم نے ایرانی قیادت پر مزید پابندیاں عائد کیں جیسا کہ ہم ملٹری اور تیل کی تجارت پر کر چکے ہیں‘ جن میںسرفہرست صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ 1500 پابندیاں ہیں‘ تو اس سے کوئی بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ امریکی حکام کے ذہنوں میں ماضی کے کئی کامیاب اقدامات کے جو نتائج موجود ہیں شاید فوری طور پر اس طرح کے نتائج نظر نہ آئیں۔ نیشنل سکیورٹی ایجنسی اور امریکی سائبر کمانڈ میں اندرونی طور پر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے کئی برس قبل ایران پر ’’اولمپک گیمز‘‘ کے کوڈ سے جس طرح کا سائبر حملہ کر کے نٹانز میں قائم اس کے یورینیم افزودگی کے سینٹری فیوج پلانٹ کو مفلوج کر دیا تھا‘ اب ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔

امریکا اور اسرائیل کے موجودہ اور سابق حکام یہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد ایران نے اپنا دفاعی نظام بہت بہتر کر لیا ہے اور اپنی سائبر فورس بھی تیار کر لی ہے اور اس کے بارے میں گزشتہ ہفتے ہی امریکی حکومت نے وارننگ جاری کی ہے کہ وہ فورس امریکا کے اندر روز بروز متحرک ہو تی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے ساتھ کئی معاہدوں کے باوجود ایران نے عالمی انسپکٹرز کو اپنی اہم ترین تنصیبات کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement