ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

افغان فنڈز کا تنازع

تحریر: چارلی سیویج

آج سے بیس برس پہلے‘ نائن الیون حملوں سے متاثرہ 150خاندانوں نے القاعدہ اور طالبان کی دہشت گردی سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے عدالت سے انصاف کی اپیل کی تھی۔ ایک عشرے کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ دونوں مدعا علیہان ہی اس سانحے کے ذمہ دار ہیں اور حکم دیا کہ وہ مرنے والوں کے وارثان کو معاوضے کے طور پر 7 ارب ڈالرز ادا کریں مگر یہ فیصلہ محض علامتی تھا کیونکہ اس جرمانے کی ادائیگی کا کوئی امکان نہیں تھا، مگر اب طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض ہو گئے ہیں۔ ان کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کے سینٹرل بینک کا اکائونٹ نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں ہے جس میں سابق حکومت نے فارن فنڈنگ اور دیگر ذرائع سے ملنے والے7 ارب ڈالرز جمع کرا رکھے ہیں جو قانونی طور پر اب ان کی ملکیت ہیں۔ اس پر اب ایک نیا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ اگر یہ رقم طالبان کی ہے تو کیا اس رقم پر نائن الیون حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کا حق نہیں ہے؟

بائیڈن حکومت میں شامل اعلیٰ حکام اب اس سوال کے جواب پر بحث کرنے میں مصروف ہیں جو قومی سلامتی، سفارتی اور سیاسی مسائل کے پیچیدہ پہلوئوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال کے مطابق نائن الیوں حملوں سے پیدا ہونے والے پیچیدہ ایشوز دو عشرے گزر جانے کے بعد بھی کس طرح حل طلب ہیں۔ اب امریکا کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کس طرح افغان حکومت کو تسلیم کرے تاکہ وہ سنٹرل بینک میں پڑی رقم کو استعمال کر سکیں حالانکہ یہ رقم تو نائن الیون حملوںکے متاثرین کے لیے ہے۔ امریکی حکومت نے جمعہ کے روز تک عدالت کو مطلع کرنا ہے کہ قومی مفادات پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ افغانستان میں اپنی افواج کی موجودگی کی وجہ سے خود امریکا کو بھی کئی اہم مسائل کا سامنا ہے۔

اس قضیے سے آگاہ لوگوں نے اپنے نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف وکلا کے ساتھ صلاح مشورہ کر رہا ہے کہ اگر حکومت امریکا میں جمع افغان فنڈز کو ضبط کرے کا فیصلہ کر لے تو نائن الیون حملوں کے متاثرین میں یہ رقم کس طرح تقسیم کی جائے۔ نیز وائٹ ہائوس کی نیشنل سکیورٹی کونسل بھی تمام حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اس تجویز کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس مقدمے کے دو مدعیوں فیونا ہیولش‘ جس کا شوہر سائوتھ ٹاور کی 101ویں منزل پر ملازمت کرتا تھا‘ اور ایلن سراسینی‘ جس کا شوہر ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے والے ایک جہازکا پائلٹ تھا‘ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں ہماری مدد کر نی چاہئے۔ ’’آخر کو ہمارے شوہر نائن الیون حملوں میں مارے گئے تھے اور ہمیں ان کے لیے انصاف کے حصول میں کئی سال لگ گئے ہیں۔ اس کیس میں بہت سے دیگر افراد کے ساتھ مل کر ہم نے طالبان کے خلاف معاوضے کی ادائیگی کا یہ مقدمہ جیتا ہے اور اب ہم بائیڈن حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ رقم ہمیں دلانے کا انتظام کرے نہ کہ ان دہشت گردوں کو‘ جنہوں نے ہمارے پیاروں کی جان لینے میں کوئی کردار ادا کیا تھا‘‘۔

 افغان سنٹرل بینک کے ان فنڈز کو امریکی شہریوں کو منتقل کرنے سے طالبان مشتعل ہوں گے کیونکہ مغربی ممالک اس تنظیم پر خواتین کے حقوق اور اپنے ہاں دہشت گردوں کو پناہ دینے سے احتراز کرنے کے لیے بہت زیادہ دبائو ڈال رہے ہیں۔ طالبان ان فنڈز تک رسائی کا تقاضا کر رہے ہیں؛ تاہم اس مدعے سے آگاہی رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ نیشنل سکیورٹی کونسل نے اس آرٹیکل کے لیے اپنی طرف سے کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا تھا‘ اس لیے بہت سے پیرا میٹرز ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ امریکی حکومت اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے ہٹ کر کیا کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ جب طالبان نے اگست میں اچانک افغانستان پر قبضہ کر کے پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تو نیویارک کے فیڈرل ریزرو نے افغان سنٹرل بینک کے اکائونٹس تک رسائی کو بلاک کر دیا تھا۔ چونکہ امریکا نے انسدادِ دہشت گردی کے تحت عرصے سے طالبان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اس لیے ان کے ساتھ کسی قسم کا مالیاتی لین دین غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

اس عدالتی فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد نائن الیون حملوں میں متاثر ہونے والے خاندانوں کے وکلا نے ایک جج سے یہ حکم جاری کرنے کی اپیل کر دی کہ انہیں اس فیصلے کے تحت ہونے والے جرمانے کی مد میں سے رقم کی ادائیگی کا عمل شروع کیا جائے۔ 13 ستمبر کو ایک یونائیٹڈ سٹیٹس مارشل نے نیویارک کے فیڈرل ریزرو کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کو یہ رقم ضبط کر نے کے لیے ’’رِٹ آف ایگزیکیوشن‘‘ دیا۔ یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین شکل اختیار کر گیا جب ان حملوں کے متاثرین یعنی وزارتِ خارجہ کے ان سات کنٹریکٹرز کے ایک دوسرے گروپ نے ناردرن ڈسٹرکٹ آف ٹیکساس میں ایک اور کیس دائر کر دیا جو 2016ء میں افغانستان میں دہشت گردی کے ایک حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اب وہ بھی عدالتی فیصلے کے تحت مجرموں کو جرمانے میں سے ملنے والی رقم میں سے 138 ملین ڈالرز انہیں دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان دونوں مقدمات میں امریکی محکمہ انصاف بھی یہ کہتے ہوئے ملوث ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی زیر التوا قانونی کارروائی میں مداخلت کر سکتا ہے اور عدالت کو اس بات سے مطلع کر سکتا ہے کہ امریکی حکومت اپنے مفادات کا کس طرح تحفظ کرتی ہے۔

عدالتی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس کا جواب ملنے تک عدالتی کارروائی کو منجمد کر دیا گیا ہے؛ تاہم اس کیس سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے مدعیوں کے وکلا نے درپردہ امریکی محکمہ انصاف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک ڈیل کی تجویز پیش کی ہے کہ اگر جو بائیڈن حکومت عدالت میں متاثرین کی مدد کرے تو 7 ارب ڈالرز کی رقم وصول کرنے والوں کو تین کیٹگریز میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس تجویز میں یہ کہا گیا ہے کہ مقدمے کے مدعی کچھ رقم اپنے پاس رکھ سکیں گے جبکہ باقی ماندہ رقم‘ دو مقاصد میں استعمال کرنے کے لیے دے دیں گے۔ اس میں سے کچھ رقم تو نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے ہزاروں افراد کے ان بیوی بچوں کو دیے جائیں گے جو اس مقدمے میں مدعی نہیں تھے اور کانگرس کے دہشت گردی سے متاثر ہ افراد کے لیے بنائے ہوئے تلافی فنڈ میں سے تکنیکی وجوہ کی بنا پر کوئی رقم وصول نہیں کر سکے تھے۔ باقی بچ جانے والی رقم ان تنظیموں کو دے دی جائے گی جو اس وقت افغانستان میں عوام کو ادویات اور خوراک فراہم کر رہی ہیں۔ مقدمے کے مدعیوں کا کہنا ہے کہ سنٹرل بینک کے منجمد کردہ فنڈز کو استعمال کرنے کا قانونی راستہ یہی ہے جس کے تحت انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کو فوری طور پر بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

(بشکریہ: نیو یارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement