ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دل کے لیے مفید غذائیں

تحریر: جین براڈی

’’کوئی غذا اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ جب صحت بخش خوراک کی بات ہو تو اصل اہمیت ہمارے کھانے پینے کے مجموعی انداز کی ہوتی ہے‘‘۔ یہ وہ پیغام ہے جو امیریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے ہر عمر کے امریکی شہریوں کے دل اور عمومی صحت میں بہتری لانے کیلئے دی گئی غذائی رہنمائی میں دیا ہے۔ یہ سفارشات تحریر کرنے والے ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ لوگ غذائیت بخش اجزا یا اس کے انفرادی اجزا کے حساب سے نہیں کھاتے۔ وہ صرف اپنے بجٹ کے مطابق اپنا کھانا انجوائے کرنے کی نیت سے کھاتے ہیں۔ ایسوسی ایشن کو امید ہے کہ وہ اپنے جسم کو نقصان پہنچائے بغیر کھانا کھاتے ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کولا مشروب اور فرنچ فرائز چھوڑ دیں مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو آپ مخصوص غذائیں نہ کھائیں۔ امیریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر رابرٹ ایکل نے مجھے بتایا ’’کبھی کبھار آپ کو معمول کی غذائوں سے ہٹ کر بھی کھانا چاہئے۔ یہاں زیادہ زور ’کبھی کبھار‘ پر ہے‘‘۔ ڈاکٹر نیل سٹون‘ جنہوں نے اس گائیڈ لائن کمیٹی کی بہت تعریف کی ہے‘ کا کہنا ہے ’’ایسی کوئی غذا نہیں جو سب کے لیے مفید ہو بلکہ ہمیں ایسی خوراک کے لیے کچھ اصول وضع کرنا پڑتے ہیں جو سب کے لیے مفید ہو۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہمیں سب کے لیے مفید غذائیت کے لیے رہنمائی کرنی ہے، ہم اس ملک کے شہریوں کو جتنا صحتمند رکھ سکیں گے‘ ہمارے صحت کے اخراجات اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے‘‘۔ ہارٹ ایسوسی ایشن نے جب سے امراضِ قلب میں کمی لانے کے لیے غذائی رہنمائی کے اصول جاری کیے ہیں‘ اس کے پندرہ سال بعد بھی اس میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بہت زیادہ پروسیس کی ہوئی غذا میں شوگر، خون میں جم جانے والی چکنائی، میدہ، سرخ گوشت اور نمک شامل ہوگیا ہے اور ہم سبزیاں، پھل، ڈرائی فروٹ، پھلیاں اور خالص گندم کا آٹا نہیں کھاتے جو ہمیں امراض قلب، ذیابیطس اور کینسر سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔

گائیڈ لائن کی مصنفہ ایلس لیکٹن سٹین نے مجھے بتایا کہ ایک مدت پہلے ایسوسی ایشن نے خوراک کی غذائیت اور اس کے انفراد ی اجزا پر فوکس شروع کر دیا تھا اور اس نے کھانے پینے کے مجموعی طریق پر فوکس کرنا ترک کر دیا ہے جو عوام کی صحت اور بجٹ‘ دونوںکے لیے مفید ہو سکتا ہے؛ چنانچہ ہارٹ ایسوسی ایشن نے فضول اور طویل فہرست دینے کے بجائے دل کے لیے مفید غذائوں پر فوکس شروع کر دیا جن میں اچھے ذائقے اور کھانے پینے کی وسیع چوائسز شامل ہوں۔ نئی گائیڈ لائن میں ایسی ارتقائی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو عمر بھر کے لیے کافی اور مفید ہیں۔ اس کمیٹی نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ عوام کو کھانے پینے کا ایسا طریق اپنانا چاہئے جس میں ذاتی پسند ناپسند، نسلی اور ثقافتی رسم و رواج، روزمرہ زندگی کے معمولات شامل ہوں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ زیادہ تر کھانا گھر پر ہی کھایا جاتا ہے یا گھر وں سے باہر‘ مثال کے طور پر لوگوںکو ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس کی وجہ سے پاستا کھانے سے منع کرنے کے بجائے انہیں یہ پیغام دیا جاتا تو بہتر ہوتا کہ وہ اسے خالص اٹالین انداز میں کھائیں یعنی کھانے سے پہلے تھوڑی مقدار میں‘ یا اگر آپ پاستا ہی کھانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے خالص آٹے سے بنی کوئی چیز‘ برائون چاول یا تھوڑی سی دال کھا لیں۔ ڈاکٹر لیکٹن سٹن کہتی ہیں ’’ہم یہاں عمر بھر کی تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں جن میں ہم ذاتی پسند، کھانے کی روایات کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ جہاں سے کھانا کھاتے یا خریدتے ہیں‘ وہاں کیا کچھ دستیاب ہے‘‘۔

اس رہنمائی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر فرد کی انرجی کی ضرورت اور اخراجات کو پیش نظر رکھا جائے جس سے وہ اپنا صحتمند جسمانی وزن برقرار رکھ سکے۔ یہ ایسی تجویز ہے جس پر عمل کرکے اگلی دو سفارشات پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ’’کافی مقدار میں پھل اور سبزیاں کھائیںاور ایسی غذائیں کھائیں جو میدے کے بجائے خالص گندم کے آٹے سے بنی ہوں۔ اگر قیمت اور دستیابی کا مسئلہ ہو‘ جیسا کہ کئی ممالک کے کھانوں میں یہ مشکل پیش آتی ہے جہاں تازہ پیداوار نہیں ملتی‘ تو کمیٹی کی سفارش ہے کہ آپ اپنے پاس فروزن پھل اور سبزیوں کے بیگ رکھیں تاکہ آسانی کے ساتھ رقم کی بھی بچت ہو‘‘۔

کمیٹی نے پروٹین کے حصول کے لیے مچھلی، سی فوڈ، ڈرائی فروٹ اور کم چکنائی والی ڈیری پروڈکٹس کی سفارش کی ہے۔ اگر گوشت کھانے کو دل کرتا ہے تو ایسا گوشت کھائیں جس کی پروسیسنگ میں زیادہ نمک اور چکنائی استعمال نہ کی گئی ہو۔ پروٹین فوڈز پر کمیٹی کی سفارشات کو گلاسگو کانفرنس کے موقع پر شائع بھی کیا گیا جو ایک بروقت اقدام ہے۔ جانوروں کے بجائے پودوں سے حاصل کردہ پروٹین کھانا نہ صرف انسانی صحت بلکہ یہ ہماری زمین کے لیے بھی مفید ہے۔ ماہرین عرصے سے اس حقیقت سے آگا ہ ہیں کہ بیف اور سور کا گوشت ہماری زمین اور ماحولیات پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جانور پالنے کے لیے ہمیں زیادہ پانی اور زرعی زمین کی ضرورت ہوتی ہے اور پروٹین بھرے پودوں کے مقابلے میں زیادہ گرین ہائوس گیسز پیدا ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر لیکٹن سٹن کا کہنا ہے ’’یہ انسانوں اور ماحولیات‘ سب کے لیے مساوی مواقع ہیں‘‘؛ تاہم انہوں نے وارننگ دی کہ پودوں سے حاصل کردہ خوراک میں زیادہ نشاستہ اور شوگر شامل ہوئی تو اس سے ذیابیطس ٹائپ 2 اور امراض قلب میںاضافے کا رسک موجود ہے۔ انہوں نے گوشت کے متبادل کے طور پر پودوں سے حاصل ہونے والی ایسی غذائوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جنہیں بہت زیادہ پروسیس کرنا پڑتا ہے اور جن میںبہت زیادہ نمک، مضر چکنائی اور بہت زیادہ کیلوریز شامل ہوں اور جن کی پیداوار کے لیے ہماری آب وہوا بھی زیادہ موزوں نہ ہو۔ انسانی صحت اور ماحولیات‘ دونوں کے تحفظ کے لیے گائیڈ لائن کمیٹی نے مشور ہ دیا ہے کہ ہمیں کوکونٹ، پام آئل کے ساتھ ساتھ جانوروں سے حاصل کردہ چکنائی (مکھن اور سور کی چربی) سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کے بجائے ہمیں پودوں سے حاصل کر دہ مائع تیل استعمال کرنے چاہئیں جن میں مکئی، سویا بین، سورج مکھی کینولا اور زیتون کے تیل شامل ہیں۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ ان کے استعمال سے امراض قلب میں30 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ جہاں تک بیوریجز کا تعلق ہے‘ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایسے کولڈ ڈرنکس اور فروٹ جوسز استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے جن میں بہت زیادہ چینی یا شہد استعمال کیا گیا ہو۔ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ جو لوگ لوگ الکحل پیتے ہیں انہیںاس کا استعمال کم کر دینا چاہئے۔ 

کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہم ہارٹ اٹیک ہونے کے بعد ہی ان باتوں پر غو رکریں۔ ہمیں یہ سب کچھ سکول ایجوکیشن میں سکھانا چاہئے۔ سالانہ میڈیکل چیک اپ کے دوران ڈاکٹرز کو پانچ منٹ تک مریض کے روزمرہ لائف سٹائل پر بات چیت کرنی چاہئے کہ وہ کتنی مرتبہ پھل، سبزیاں، گندم کا خالص آٹا استعمال کرتا ہے اور کیا وہ غذائیت سے متعلق چارٹ بھی پڑھتا ہے یا نہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement