ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

خوش کن لمحات میں سماجی تنائو

تحریر: جینسی ڈن

کووڈ سے چند سال پہلے ہمارے خاندان کے بہت سے لوگ نیوجرسی میں میرے والدین کے گھر پر جمع تھے۔ ایک ہنگامہ برپا تھا۔ اس خوشگوار شور نے میرا سر ہلکا کر دیا تھا۔ میں خود کو ریلیکس کرنے کے لیے چپکے سے سیڑھیاں اتر کر بیسمنٹ میں چلی آئی۔ ’’ہیلو!‘‘ پیچھے سے ایک آواز آئی۔ یہ میرے والد تھے جو ایک واشنگ مشین پر جھکے ہوئے تھے۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا او ر پوچھا ’’ڈیڈ! کیا آپ ٹھیک ہیں؟‘‘۔ وہ خوشی سے بولے: ہاں! مجھے لگا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے کچھ چھپا رہے تھے۔ میں اپنے والد کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی‘ اس لیے میں دوبارہ اوپر آ گئی۔ ہم دونوں سمجھتے تھے کہ چھٹیوں میں رشتے داروں کی دعوت ایک زبردست موقع تھا۔

امیریکن سائیکالوجسٹس ایسوسی ایشن کی نومنتخب صدر تھیما برینٹ کا کہنا تھا کہ گزشتہ موسم سرما میں جب کووڈ اپنے عروج پر تھا تو کچھ فیملیز خوشگوار ایونٹس سے الگ تھلگ اپنے دوستوں یا فیملی کے ساتھ خوشیاں منانے میں مصروف تھیں جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں سست رفتار زندگی پسند ہے۔ اب جبکہ 60 فیصد امریکی شہریوں ویکسی نیشن مکمل ہو چکی ہے اور پابندیاں بھی نرم ہو چکی ہیں‘ پہلے والا شور ہنگامہ پھر سے شروع ہو چکا ہے، بہت سے لوگ ابھی تک سوشل اجتماعات میں خود کو ایک مشکل میں محسوس کرتے ہیں۔ ہر کوئی 2019ء کی طرح کسی پارٹی میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہے۔ لاس اینجلس کی ایک فیشن ڈیزائنر ڈیلیا میک فی کہتی ہیں ’’کئی مہینوں تک الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے لگتا ہے کہ مجھے دوبارہ بچوں کی طرح چلنے سے شروع کرنا پڑے گا‘‘۔ ییل سکول آف میڈیسن کی سائیکاٹرسٹ پائولا زمبرین کہتی ہیں ’’سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی مریض مجھے کہتا ہے کہ مجھے زندگی پہلے کی طرح شروع کرنے پر کسی قسم کی انزائٹی محسوس نہیں ہو رہی تو مجھے تشویش ہونے لگتی ہے۔ ہمیں سماجی صورتحال میں شامل ہونے کے لیے نئے سرے سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا اور اس حوالے سے ہمیں خود اور دوسروں کو رعایت بھی دینا پڑے گی‘‘۔

اگر اس مہینے آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو ہم بتاتے ہیں کہ آپ نے چھٹیوں کے لیے وقت کیسے نکالنا ہے؟ ڈاکٹر زمبرین کہتی ہیں ’’اب جبکہ چھٹیوں کا سیزن شرو ع ہو چکا ہے، ہمارے پاس یہ جائزہ لینے کا موقع ہے کہ کون سے تعلقات ہمارے لیے ضروری ہیں اور ہمیں ان پر کتنا وقت صرف کرنا چاہئے‘‘۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر دعوت کو قبول کر کے ہم انجوائے نہیں کر سکتے‘ یوں ہم صورتحال کو غیر ضروری طور پر سنگین بنا لیتے ہیں۔ ٹی ڈیوڈ لرمین ایک سائیکوتھراپسٹ ہیں اور ان کا کہنا ہے ’’میرے پاس آج کل اتنی ہی سوشل انرجی ہے کہ مجھے کسی ایونٹ میںجانا چاہیے یا نہیں‘‘۔ اس مقصد کے لیے لرمین نے ایک فلسفہ وضع کیا ہے جسے وہ ’’Hell, Yes‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے میرا رد عمل ہوتا ہے ’’ہیل، یس! میں ایسا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ اگر میں اس دعو ت کے لیے زیادہ پُرجوش نہ ہوں تو میں اسے نظر انداز کر دوںگا۔

سارہ احمد ٹورنٹو میں سائیکوتھراپی کلینک چلاتی ہیں‘ ان کا کہنا ہے ’’میں جانتی ہوں کہ میں ہفتے میں صرف دو فنکشن میں ہی شرکت کر سکتی ہوں حالانکہ کہ کووڈ سے پہلے یہ تعداد بہت زیادہ تھی‘‘۔ ان کا مشورہ ہے ’’آپ اپنے جسم کو سمجھیں کہ کیا وہ کیا کہتا ہے؟ ہمارے جسم مسلسل ہمارے ساتھ باتیںکرتے ہیں، سوشل انزائٹی کی عمومی علامات میں تھکاوٹ، سر درد، پسینہ آنا، بے کلی اور دل کی دھڑکن کا تیز ہونا شامل ہیں۔ اگر آپ کسی ایونٹ میںشرکت کے بعد تھکاوٹ اور بیزاری محسوس کر رہے ہیں تو آپ خود سے کہتے ہیں کہ میں اس ہفتے کے باقی ایونٹس پر دوبارہ غور کروں گا‘‘۔ اگر آپ کوئی دعوت مسترد کرنا چاہتے ہیں تو جلد سے جلد ایسا کر لیں؛ تاہم شائستگی کے ساتھ مختصر الفاظ میں انکار کریں۔

کسی چھٹی والے دن کے فنکشن کے لیے آپ کو اپنے ساتھ زیادہ نرم رویہ اپنانا ہوگا۔ ڈاکٹر برینٹ کا کہنا ہے ’’آپ ایسے کام کریں جن سے آپ کو سکون محسوس ہو مثلاً میوزک بجا لیں اس سے آپ کا موڈ خوشگوار ہو جائے گا‘‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ آپ ایونٹ کے بعد کا پلان بھی بنا لیں۔ آپ اپنے آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایونٹ کے بعد میں ببل باتھ لوں گا اور گرین ٹی کا ایک کپ پیوں گا۔ آپ اپنے اعتماد کے کسی دوست کے ساتھ فون کال بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی ایونٹ میں ذہنی طور پر بوجھل محسوس کر رہے ہیں تو آپ اپنے ذہن کو نئے سرے سے تیار کریں۔ اپنے گرد و نواح میں موقع ہے تو آپ تازہ ہوا لینے کے لیے واک کر سکتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر مونیکا لیوئس کہتی ہیں ’’اگر آپ کسی فنکشن میں صر ف ایک گھنٹے تک ہی رک سکتے ہیں تو جلد از جلد اپنے میزبان کو بتا دیں یا جیسے ہی آپ کو مناسب وقت ملے تو بتا دیں۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ آپ عین وقت پر فنکشن میں پہنچ جائیں اس وقت تک زیادہ لوگ نہیں پہنچے ہوتے۔ آپ آسانی سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ آپ اس وقت فنکشن میں نہ جائیں جب وہ پوری طرح بھر چکا ہو‘‘۔ لاس اینجلس کے سائیکاٹرسٹ ایٹائی ڈینوویچ کہتے ہیں ’’کسی سوشل فنکشن میں جانے سے پہلے کے لمحات میں انسان کافی نروس ہوتا ہے؛ تاہم اگر آپ کو لگے کہ آپ کا  تنائو آپ کی روز مرہ زندگی کے لیے زیادہ پریشان کن ہے اور آپ کے معمول کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ اگر یہ انزائٹی مسلسل رہتی ہے تو مناسب ہوگا کہ آ پ کسی پروفیشنل سے مل کر اس سے رائے لیں کہ کہیں آپ سوشل انزائٹی ڈس آرڈر کا شکار تو نہیں ہیں؟‘‘۔ ڈاکٹر لیوئس کہتے ہیں ’’کسی بھی سماجی اجتماع میں سب سے پہلے آپ نے یہ کام کرنا ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ اور کمفرٹیبل ہونے کا احساس دلانا ہے۔ اس کے بعد ریلیکس ہوں اور ہنسی مذاق میں شرکت کریں۔ ہم نے ان لمحات کے لیے دو سال انتظار کیا ہے‘ خود کو ان لمحات میں زیادہ سے زیادہ مشغول رکھیں‘‘۔

ڈاکٹر لرمین کا مشورہ ہے کہ اگر آپ کی دلچسپی کم ہونے لگے تو خود کو یہ یاددہانی کرائیں کہ آپ وہاں کیوں گئے ہیں۔ اپنے آپ سے کہیں کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ انجوائے کر نے پر فوکس کر رہا ہوں یا میں اپنے پارٹنر سے واقعی محبت کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ اسے بھی اس کا احساس ہے لہٰذا میں اسے محسوس کرائوں گا کہ میں بھی یہیںموجود ہوں‘ جو بات آپ کے بس میں نہیں ہے اسے فراموش کر دیں‘‘۔

ڈاکٹر لرمین کے نزدیک اس بے چینی کا بہترین حل گہرے لمبے سانس لینا ہے کیونکہ یہ اتنا خفیہ کام ہے کہ آپ بات کرتے ہوئے بھی گہرے سانس لے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر لیوئس کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آپ وہاں اتنے زیادہ محظوظ ہو رہے ہوں کہ سب سے آخر میں آپ ہی وہاں سے روانہ ہوں؛ تاہم انہوں نے آخری مشورہ دیا کہ ’’اگر آپ کا میز بان اپنے کونٹیکٹ لینز اتارنا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ روانگی کا وقت ہو چکا ہے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement