ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

اومیکرون کا شدید حملہ

تحریر: مارک سینٹورا

اومیکرون ویری اینٹ اس وقت دنیا میں اتنی تیز ی سے پھیل رہا ہے کہ اسرائیل‘ جہاں سب سے زیادہ آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے‘ کے وزیراعظم نفتالی بینٹ کو بھی کہنا پڑ گیا کہ اسے روکنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’ہم اسے نہیں روک سکتے‘‘۔ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ جن ممالک میں اومیکرون پھیل رہا ہے‘ وہاں سب کی ایک ہی رائے ہے کہ وائرس اتنی رفتار سے پھیل رہا ہے کہ اسے پکڑنا ممکن نہیں۔ یہ جن ممالک میں سامنے آیا اس کے ایک ماہ بعد ہی ملنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر یہ رائے قائم ہو گئی تھی۔ اپنی تیز رفتاری کے باوجود یہ معمولی علامات کا باعث بنتا ہے کیونکہ ویکسین اور بوسٹر شاٹ لگنے کی وجہ سے بیماری کی شدت اور شرح اموات پر قابو پانا ممکن ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ جس رفتار سے انفیکشن کیسز سامنے آ رہے ہیں‘ اس سے ہمارے پہلے سے دبائو میں آئے ہیلتھ کیئر سسٹم پر مریضوں کا ایک سیلاب آ جائے گا مگر ان کی اس تشویش کو ان لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ تسلیم کر نے کا وقت آ گیا ہے کہ یہ وائرس ایک وبا ہے اور دنیا بھر کے ممالک کو لاک ڈائون کا خیال ترک کرکے مختصر قرنطینہ اور نرم قواعد و ضوابط کی طرف جانا چاہئے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر آف میڈیسن اور برطانوی حکومت کے مشیر ڈاکٹر جان بیل کا بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہنا تھا ’’اومی کرون ایسی بیماری نہیں ہے جس کا ہمیں ایک سال پہلے سامنا تھا۔ ہم نے اپنے آئی سی یوز میں جس طرح کے خوفناک مناظر دیکھے ہیں‘ جہاں لوگ مر رہے تھے‘ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں ایک بار پھر یاددہانی کرانی چاہئے کہ یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا‘‘۔ ایسا لگ رہا ہے کہ برطانیہ ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں اومی کرون کی پہلی لہر نے بہت زیادہ انفیکشن پھیلایا تھا؛ تاہم اس نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال جو صورت حال ہے اسے دیکھتے ہوئے ابھی زیادہ سخت قواعد و ضوابط نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے برطانیہ کے اعداد و شمار ابھی نامکمل ہیں‘ پیر کے دن شائع ہونے والے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ہفتے اور پیر کے درمیان تین لاکھ سے زائد نئے کووڈ کیسز درج ہوئے ہیں لیکن این ایچ ایس پرووائڈرز‘ جو برطانیہ کے ہیلتھ سٹاف کی ممبر شپ کی ذمہ دار تنظیم ہے‘ کے سربراہ کرس ہاپسن نے کہا ہے کہ مریضوں کے ہسپتالوں میں داخلے کی شرح بہت بڑھ گئی ہے مگر یہ بہت تیز رفتار اضافہ نہیں ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر ہسپتالوں کے سربراہوں کے ساتھ بات چیت کی ایک سیریز میں لکھا ہے ’’دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کے داخلے کی بات کر رہے ہیں جن میں کووڈ کی ظاہر ی علامات نظر ہی نہیں آتیں، انہیں دیگر وجوہات کی بنا پر ہسپتالوں میں داخل کیا جا رہا ہے اور پھر ان میں کووڈ کا ٹیسٹ مثبت آ رہا ہے۔ کچھ لوگ ایسے افراد کو اتفاقیہ کووڈ مریض قرار دے رہے ہیں‘‘۔

پروفیسر ہال ہنٹر‘ جو ایسٹ اینجلیا یونیورسٹی میں متعدی امراض کے ماہر ہیں‘ نے کہا ہے کہ اومیکرون کیسز میں حالیہ اضافہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے ’’اگر ہیلتھ سروس پر اس قدر دبائو آ سکتا ہے کہ وہ بالکل ہی کام نہ کر سکے تو اس صورت میں ابھی سے کنٹرول کرنے والے اقدامات کا نفاذ ایک درست فیصلہ ہو گا مگر بہت زیادہ سخت حفاظتی تدابیر میں بھی ذہنی کے ساتھ ساتھ خطرناک معاشی رسک بھی موجود ہے۔ رویوں میں جبری تبدیلی لانے سے انفیکشن کے کیسز ختم نہیں ہوں گے‘ ان میں کسی حد تک تاخیر ہو سکتی ہے، لہٰذا مزید سخت پابندیاں کورونا کیسز میں اضافے کو روک دیں گی اور ہمارے ہیلتھ سسٹم پر قلیل مدتی دبائو کو بھی کم کر دیں گی مگر اومی کرون کی موجودہ لہر کا دورانیہ بھی طویل ہو جائے گا۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ کیسز میں اضافے کو یہیں روک دیا جائے مگر اس کے ساتھ یہ رسک بھی موجود ہے کہ ویکسین کی امیونٹی کمزور ہونے کی وجہ سے مزید لوگ طویل مدتی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے‘‘۔

برطانیہ میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ موجودہ بحران سے کس طرح نمٹنا ہے۔ سکاٹ لینڈ، ویلز اورشمالی آئر لینڈ‘ سب نے مل کر اومیکرون کیسز میں کمی لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہم فیصلہ چار دیواری کے اندر اجتماعات کی حوصلہ شکنی ہے۔ پورے یورپ میں تقسیم موجود ہے کہ اومیکرون کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف ردعمل کیسے دینا ہے۔ اس رویے کو فرانسیسی وزیر اعظم ژین کاسٹیکس نے ’’ایسی فلم قرار دیا ہے جس کا کوئی انجام نہ ہو‘‘۔ فرانس میں اومیکرون کیسز کی تعداد میں ایک ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں سرکاری ہسپتالوں کے آئی سی یوز پر غیر معمولی دبائو بڑھ گیا ہے؛ چنانچہ حکومت آئی سی یوز میں کام کرنے والی نرسز کو 100یورو ماہانہ اضافی معاوضہ ادا کرے گی۔ وزیراعظم کاسٹیکس نے منگل کو پیرس کے قریب ایک ہسپتال کے آئی سی یو کا دورہ کرتے ہوئے کہا ہے ’’اس اضافے اور ان نرسز کی خدمات کا اعتراف کرنے کی وجہ سے آئی سی یو ز میں کام کرنے میں کشش پیدا ہو گی ٹریننگ، کوالیفکیشن اور وہاں کام کرنے کے حالات میں بہتری آئے گی‘‘۔

اب تک دنیا نے کووڈ سے نمٹنے کے لیے جتنے بھی حربے آزمائے ہیں‘ ان میں لاک ڈائون، ویکسی نیشن سٹیٹس کے پاسز، محدود اجتماع، لازمی ماسک اور حفاظتی سماجی فاصلہ شامل ہیں۔ اس وقت یہ تمام حربے ایک بار پھر پورے یورپ میں بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ مزید اقدامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیر کی رات ان نئے اقدامات کے خلا ف جرمنی میں ہزاروں افراد سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے جن کے تحت نائٹ کلبز کی رات کو بندش اور دس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ اس کے بعد مووی تھیٹرز اور سپورٹس ایونٹس پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ قواعد و ضوابط کے ساتھ یا ان کے بغیر کووڈ کیسز کم کرنے کے لیے مثبت ٹیسٹ کے نتائج دنیا بھر میں بزنس کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن اٹلانٹا نے بھی پیر کے دن مجوزہ اوقات کو مختصر کر دیا جس کے تحت امریکی شہریوں سے کہا گیا ہے کہ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ خود کو قرنطینہ کر لیں۔ اب یہ وقت دس کے بجائے پانچ دن کر دیا گیا ہے۔

آج کل اسرائیل میں ماہرین کے خیال میں جتنے بھی کووڈ کیسز سامنے آ رہے ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ اومیکرون کیسز نکلتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کورونا کا یہ ویری اینٹ جلد ملک میں پھیلے ہوئے ڈیلٹاکے ویری اینٹ کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ اتوار کو جن لوگوں میں کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے‘ ان میں وزیر اعظم نفتالی بینٹ کی اپنی بیٹی بھی شامل ہے جس کی عمر چودہ سال ہے اور اسے ویکسین لگ چکی ہے۔ وزیراعظم کا ٹیسٹ تو منفی آیا ہے مگر وہ قرنطینہ میں رہ کر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement