ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

کووڈ ویکسین اور شرحِ اموات میں کمی

تحریر: البرٹ سن

اپریل میں‘ جب سے مارکیٹ میں ویکسین دستیاب ہوئی ہے‘ کووڈ سے مرنے والوں کی شرح میں کافی کمی آ چکی ہے، مگر گزشتہ 8 ماہ کے دوران امریکا میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد اس عالمی وبا سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس سے قبل کہ تمام بالغ افراد ویکسین کے اہل بن جائیں‘ یہ وائرس تمام وجوہات سے مرنے والے نوجوانوں اور سفید فام امریکیوں کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اپریل میں ویکسین مارکیٹ میں آئی اور مارچ میں جب تمام بالغ لوگ اس ویکسین کے اہل ہوئے‘ کووڈ سے مرنے والوں کی شرح کل اموات کا 14 فیصد ہے جبکہ اس سے پہلے یہ شرح اموات 11 فیصد تھی۔

اس سے پہلے کووڈ سے مرنے والوں میں عمر رسیدہ سفید فام اور رنگدار امریکیوں کی شرح زیادہ تھی، سی ڈی سی پی کے ڈیٹا کے مطابق اب اس شرح میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ تیزی سے پھیلنے والا ویری اینٹ اومی کرون اس ٹرینڈ کو کس حد تک متاثر کرتا ہے کیونکہ شرح اموات کا موجودہ ڈیٹا صرف نومبر تک قابل اعتبار ہے۔ سائنس دانوں کو پھر بھی امید ہے کہ ویکسین اور خاص طور پر اس کی بوسٹر شاٹ اومی کرون کے بدترین اثرات کے خلاف تحفظ فراہم کر ے گی۔

کووڈ 19 خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے لیے بڑا مہلک ثابت ہوا ہے مگر یہی گروپ تھا جو سب سے پہلے ویکسین لگوانے کے اہل ہوا تھا۔ 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں ویکسین لگوانے کی شرح سب سے زیادہ ہے کیونکہ ان میں سے 90 فیصد لوگوں کو کووڈ کی ویکسین لگ چکی ہے؛ چنانچہ ان کی جانیں بچانے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ آج بھی نوجوانوں کے مقابلے میں عمر رسیدہ لوگ ہی زیادہ کووڈ سے مر رہے ہیں مگر اب اس وائرس سے 65 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی شرح اموات میں بھی کمی آ چکی ہے۔ ویکسین آنے سے پہلے ان میں شرح اموات کہیں زیادہ تھی۔ 65 سال سے کم عمر لوگوں میں اب کووڈ سے شرح اموات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب نسلی اعتبار سے بھی شرح اموات میں تبدیلی کافی سنگین ہو چکی ہے کیونکہ اب درمیانی عمر کے سفید فام افراد کی شرح اموات میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔

 ویکسین عام دستیاب ہونے سے پہلے کے مقابلے میں اب اس گروپ کے لوگوں میں مرنے کی شرح کافی بڑھ چکی ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب سفید فام لوگوں میں ویکسین لگنے کی شرح کم ہے۔ ویکسین لگانے کی مہم کے ابتدائی دنوں میں تو سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد لوگوں کے مقابلے میں سفید فام شہریوں میں ویکسین لگنے کی شرح زیادہ تھی کیونکہ رنگدار لوگوں کی ویکسین تک رسائی میں زیادہ رکاوٹیں حائل تھیں مگر حالیہ دنوں میں سی ڈی سی سے ملنے والا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ویکسین لگنے کا یہ فرق کافی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ اب سفید فام لوگوں کے مقابلے میں ایشیائی اور ہسپانوی نژاد لوگوں میں ویکسین لگنے کی شرح زیادہ ہو چکی ہے؛ چنانچہ عمر رسیدہ سفید فام لوگوں میں مرنے کی شرح بھی کافی بڑھ چکی ہے۔

 نوجوانوں کے تمام گروپوں میں ویکسین لگنے کی شرح بھی کافی کم ہے اور پانچ سال سے زائد عمر کے بچے بھی نومبر کے بعد ہی ویکسین لگوانے کے اہل ہوئے ہیں۔ چونکہ اب ویکسین ہر لیول پر دستیاب ہے اس لیے کووڈ سے مرنے والوں کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ امریکا کی زیادہ تر کائونٹیز میں شرح اموات گر چکی ہے اور ہر پانچ میں سے ایک کائونٹی میں مرنے والوں کی شرح اب نصف رہ گئی ہے مگر وہیں دوسری طرف ہر دس میں سے ایک کائونٹی میں یہ شرح دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ کووڈ کے ابتدائی مہینوں میں شمال مشرقی ریاستوں میں شرح اموات سب سے زیادہ رہی تھی جن میں نیویارک سٹی اور کچھ دیگر شہری علاقے بھی شامل ہیں۔ جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تو وہ علاقے جو پہلے سال اس حملے سے بچنے میں کامیاب رہے تھے‘ اب اپنے ہاں شرح اموات کو کم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو گئے۔

مسسپی اور الباما وہ ریاستیں ہیں جہاں کووڈ سے متاثرہ افراد کی شرح اموات میں کمی دیکھنے میں آئی تھی مگر اس کے باوجود ورمونٹ اور مین جیسی دوسری ریاستوں میں مرنے والوں کی مجموعی شرح سے یہاں مرنے والوں کی شرح بہت زیادہ تھی۔ ان ریاستوں میں شرح اموات میں اضافہ ہونے کے باوجود مرنے والوں کی تعداد دوسری ریاستوں سے کم رہی۔ مجموعی اعداد و شمار کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات مشاہدے میں آئی کہ جن امریکی ریاستوں کے شہریوں میں کووڈ کی ویکسین لگوانے کا رجحان کم رہا تھا‘ ان ریاستوں میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ رہی۔ خاص طور پرجب سے یہاں کورونا کا ڈیلٹا ویری اینٹ پھیلنا شروع ہوا تھا، جنوبی ریاستوں میں اس کی خوفناک تباہ کاری دیکھنے میں آئی۔

ان تمام پہلوئوں اور عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کووڈ سے مرنے والوں کی شرح میں تبدیلی دیکھنے کے لیے یہ بات مدنظر رکھنا پڑتی ہے کہ کس کس علاقے کو سب سے زیادہ ڈیلٹا کے ویری اینٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دوسری بات یہ کہ ان متاثرہ علاقوں میں وہ کون کون سے نسلی گروپ تھے جنہوں نے کورونا وائرس کی ویکسین ابھی تک نہیں لگوائی تھی۔ جن ریاستوں اور شہروں میں صحت عامہ کے حکام کی طرف سے پیشگی حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں نرم رویہ اپنایا گیا تھا‘ وہاں کووڈ سے مرنے والوں کی شرح پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک بڑھ گئی تھی۔ جب کووڈ ویکسین لگوانے کے اہل تمام امریکی شہریوں کی تعداد اور ان کے کورونا کے بارے میں عمومی رویے میں تبدیلی لانے کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہو گئیں اور بہت سے علاقو ں میں کورونا وائرس خاص طور پر‘ اس کے نئے ڈیلٹا ویری اینٹ کو روکنے میں کوئی کامیابی نہ ملی تو اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا سے متاثر ہ افراد کی ہسپتالوں میں آمد اور داخلے کی تعداد کہیں زیادہ ہو گئی۔ ہسپتال میں داخل ہونے والے جن لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی وہ سب وہی لوگ تھے جنہوں نے تما م تر کوششوں کے باوجود کووڈ ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔

سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی طرف سے اب تک جو بھی اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں‘ ان کے مطابق یہ ڈیٹا صرف 25 ریاستوں اور شہروں میں مرنے والوں کی تعداد پر مشتمل ہے اور اس سے بخوبی یہ ظاہر ہو تا ہے کہ ویکسین لگوانے والے لوگوں کے مقابلے میں ان افراد میں 14 گنا زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں جنہوں نے کووڈ کی ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ جو نئی بات دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ ایسے علاقوں میں اومی کرون سے متاثرہ کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جہاں ویکسین لگانے کی شرح سب سے زیادہ تھی۔ اگرچہ ابتدائی مرحلے پر ہونے والی سٹڈیز سے یہ ثابت ہو رہا ہے اور سائنس دان بھی عوام کو پیشگی اس پہلو سے آگاہ کر رہے ہیں کہ بے شک اس ویری اینٹ کا انفیکشن بہت زیادہ مہلک اور خوفناک نہیں ہے؛ تاہم ابھی اس مرحلے پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ویری اینٹ کتنا مہلک ثابت ہو گا اور یہ کن لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement