ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

طالبان سے تعاون ناگزیر ہے

تحریر: لارل ملر

جب امریکا نے گزشتہ موسم گرما میں افغانستان سے فوج واپس بلائی تو اس کے پاس دو ہی آپشن بچے تھے۔ اول یہ کہ اب تک غیر ملکی امداد سے چلنے والی ریاست کو تباہ ہونے دے یا اس تباہی کو روکنے کے لیے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی طالبان سے تعاون کرنے کا راستہ اپنائے۔ انخلا کے چا رمہینے گزرنے کے بعد بھی بائیڈن حکومت کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ انسانی المیے کے بڑھنے سے پہلے طالبان کے ساتھ تعاون کرے یا نہیں۔ وقت بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ امریکا کو طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کڑوی گولی نگلنا پڑے گی تاکہ افغانستان کو ایک ناکام ریاست بننے سے بچایا جائے۔ پابندیا ں لگا کر یا فنڈز منجمد کر کے ہم اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ اس وقت افغانستان کی حکومت طالبان کے ہاتھ میں ہے مگر پابندیوںکا نتیجہ پبلک سروسز یعنی خدمت عامہ کی تباہی کی شکل میں ہی نکلے گا، معیشت برباد ہو جائے گی اور افغان عوام کا ذریعۂ روزگار مزید سکڑ جائے گا۔ افغانستان میں بیس سال کی سرمایہ کاری کے بعد یہ طالبان یا امریکا‘ دونوں میں سے کسی کے حق میں نہیں ہو گا۔ ایک ناکام ریاست شدت پسند عناصر کے پھلنے پھولنے لیے ایک زرخیز سرزمین ثابت ہو گی جبکہ آئندہ کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے مغرب کے پاس کوئی گنجائش نہیں بچے گی۔

افغان عوام ہر نئے دن تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی ساری معیشت کا دار و مدار نقد رقوم پر ہے اور ان کے پاس کرنسی نہیں ہے۔ بھوک اور افلاس تیزی سے بڑھ رہا ہے، سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں جبکہ لازمی سروسز تباہ ہو چکی ہیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سخت تادیبی ردعمل دیا تھا۔ رقوم کی ترسیل روک دی گئی حالانکہ عوامی اخراجات کا تین چوتھائی اسی مد سے پورا کیا جا رہا تھا، بیرونِ ملک افغان حکومت کے اثاثے منجمد کر دیے گئے، ملک کو عالمی مالیاتی نظام سے بالکل کاٹ دیا گیا اور طالبان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں؛ چنانچہ اس کے اثرات طالبان کے زیر دست پوری حکومت پر مرتب ہوئے۔ قابل اعتراض اور ناپسندیدہ حکومتوں سے نمٹنے کی امریکی روایت تو یہی ہے مگر اس کے نتائج عام شہریوں کے لیے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ تباہ کن قحط، کووڈ اور حکومتی امور چلانے میں افغان طالبان کی نااہلی نے وہ سب کچھ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جسے آج دنیا انسانی المیے سے تعبیر کر رہی ہے۔

مغرب کی نئی حکومت کو تنہا کرنے کی تما م کوششیں افغانستان کی تباہی کی صورت میں ہی نظر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن ممالک نے پابندیاں عائد کی ہیں‘ انہوں نے ہی 20 سال تک افغان حکومت کو اپنا محتاج بنائے رکھا۔ عالمی تنہائی کے آپشن پر تیزی سے عمل ہوا اور اس پر عمل کرنا آسان بھی تھا۔اس پر سیاسی طور پر کچھ خرچ نہ آیا اور طالبان حکومت کو مسترد کرنے کا بیانیہ بھی پسند کیا گیا۔ امریکا کو چاہئے کہ وہ سابق شورش پسند طالبان اور افغان حکومت کے مالک موجودہ طالبان کے مابین ایک امتیازی لکیر ضرور کھینچے۔اس کا آغاز طالبان پر ایک گروپ کے طور پر عائد پابندیاں ہٹا کر ہو سکتا ہے۔ ریاستی فنکشنز مثلاً دیہی ترقی، زراعت، بجلی اور بلدیاتی حکومت کو فنڈنگ کی جائے۔ عالمی مالیاتی نظام سے منسلک ہونے کے لیے افغان مرکزی بینک کو بحال کیا جائے۔ خاص طور پر پبلک سروسز کو سپورٹ کیا جائے کیونکہ افغان حکومت ہی ملک کا روزگار دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ان اقدامات سے مغربی ممالک کے مفادات کا بھی تحفظ ہو گا۔ ان اقدامات سے ملک سے بڑے پیمانے پر ہجرت اور منشیات کی پیداوار روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس طرح طالبان کے لیے بھی موقع پیدا ہو گا کہ وہ افغانستان میں داعش اور دیگر شدت پسند گروپوں کی طرف سے دہشت گردی کی دھمکیوں سے نمٹنے میں امریکا کے ساتھ تعاون کر سکیں۔ بلاشبہ پہلی حکومت کے مقابلے میں طالبان کے دور میں افغانستان کی مالی حالت زیادہ خراب ہو گی اور کوئی بھی حکومت ماضی کی طرح اسے مالی امداد فراہم نہیں کرے گی۔ فوری طور پر امداد بند کر دینے کے بجائے افغان شہریوں کو کم از کم سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک کو تشویش ہے کہ ایسا کرنے سے طالبان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا یا وہ ان فنڈز کا ناجائز استعمال کریں گے تو اس کے لیے مناسب مانیٹرنگ اور پابندیو ں کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ امر باعث حیرت نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان عوام کو اس سردی میں بھوک سے بچانے کے علاوہ کچھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ ایک عسکری گروپ کو قانونی جواز دینے سے گریز کر رہے ہیں جس نے طاقت سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ طالبان کے ماضی اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر ایسا کرنا نظر چرانے کے مترادف ہو گا۔

میں اس ہچکچاہٹ کی وجہ بھی سمجھتا ہوں‘ شاید ان کی نیت طالبان پر ایک دبائو برقرار رکھنا ہے مگر میں گزشتہ دو عشروں سے مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ مغربی ممالک نے اس حوالے سے کس طرح اندازہ لگانے میں غلطی کی ہے کہ افغانستان میں خواہ کوئی بھی حکومت قائم ہو‘ وہ اس سے اپنے مطالبات منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو افغان حکومت اپنی معاشی بقا اور سلامتی کے لیے کلی طور پر امریکا کے رحم و کرم پر تھی‘ اس نے تمام دبائو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکا کی ترجیحی بنیادوں پر امن قائم کرنے اور انسداد بدعنوانی کی حکمت عملی کی حمایت کی۔ میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیںطالبان سے انسانی حقوق کا احترام کروانے اور سکیورٹی کی ترجیحات پر عمل کروانے کی کوششیں ترک کر دینی چاہئیں مگر ہمیں توقعات وابستہ کرتے ہوئے اعتدال کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ہمیشہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ افغان طالبان کی حکومت خواتین کو کبھی وہ انسانی حقوق نہیں دے گی جو ہماری مغربی اقدار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ انہوں نے کبھی بھولے سے بھی ایسا عندیہ نہیں دیا کہ وہ افغانستان میں کوئی جمہوری حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بات کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ القاعدہ کی باقیات کو تباہ کرنے یا انہیں ہمارے حوالے کرنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات کریں گے۔ ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے انہیں اپنی سرگرمیاں ترک کرکے پس پردہ جانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ امریکا یا کوئی بھی یورپی ملک ایسا نہیں ہے جو کبھی اس طرح کی حکومت کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کرے مگرسب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان شہریوں کے پاس اس کا جو متبادل آپشن موجود ہے‘ وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ ان کے پاس اس چوائس کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں کہ وہ طالبان حکومت میں اپنی زندگی گزاریں اور انہیں اس وقت فوری طور پر زندہ رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش چاہئے۔ ان میں سے جو چوائس بھی مشکل ہے اسے ہی اپنانا چاہئے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement