ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بورس جانسن کی اصل شخصیت

تحریر: مویالوتھین میکلین

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ایک سکینڈل کی زد میںہیں اور انہیں کوروناوائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کا بھی سامنا ہے مگر وہ پھر بھی اپنا راستہ تبدیل کرنے سے انکاری ہیں۔انہوں نے چارجنوری کو یہ اعلان کیا کہ ہمارے پاس ایک بار پھر ملک میں لاک ڈائون کے بغیر اومیکرون سے نمٹنے کا موقع ہے۔

صحت عامہ کے حکام اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیںمگر بورس جانسن پورے کووڈ کے دوران کی طرح‘ جب لاک ڈائون ایک آخری حل تھا اور جلد سے جلد پابندیاں ختم کرنے کی بات ہوتی تھی‘ آج بھی اسی طرز عمل پر قائم ہیں۔وہ جس سیاسی پلیٹ فارم سے مخاطب تھے اسی نے ہی انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا تھا۔یہی وہ شخصیت ہے جس نے بریگزٹ کو ممکن بنایا ‘آزادیاںبحال کرنے اور کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے کے وعدے پر وزیراعظم بنے تھے۔کووڈ سے بے خوف ہو کر بورس جانسن اپنے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں مگر جمہوریت میں اصلاحات لانے اور برطانوی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے وہ اور ان کے حواری اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط اور عام شہریوں کی آزادی کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ۔

اسی سال ایسے بہت سے بل پاس ہو رہے ہیں جن سے جمہوریت کا علمبردار برطانیہ آمریت کی راہ پر چل نکلے گا۔یہ قوانین ایک دفعہ نافذ ہو گئے تو پھر انہیں تبدیل کرنا مشکل ہو جائے گا۔بورس جانسن کے لیے تو یہ اختیارات غصب کرنے کی ایک مشترکہ کوشش ہے۔اسی میں اس کاجواب بھی مضمر ہے۔بورس جانسن ایک سیاسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ کبھی لبرل ‘کبھی ٹوری اور کبھی انگریز قوم پرست۔ان کے بارے میں کوئی قیاس آرائی کرنا مشکل ہے‘مگر اب انہوں نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے کہ وہ حقیقت میں کیا ہیں۔ایک آمر جسے اپنے خیالات کے علاو ہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ان کا مستقبل جو بھی ہو برطانیہ کی قسمت کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں ہوگا۔

کووڈاور بریگزٹ کے ہنگاموں کے دوران اور بورس جانسن کے ذاتی حیثیت میں انسانی آزادیوں پر ممکنہ بھرپور حملے جیسے اہم سوال کی طرف ابھی برطانوی عوام کی اکثریت کی توجہ نہیں گئی۔قوانین کی فہرست بہت طویل اور بھاری ہے ۔اولین قانون پولیس ‘جرائم ‘سزائوں اور کورٹ بلز سے متعلق ہے۔ ایک خوفناک اور طویل قانون جو انگلینڈ اور ویلز میں احتجاج کی آزادی ختم کر نے سے متعلق ہے ۔پولیس کو بدامنی پیدا کرنے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے لیس کیا جائے گا‘جو لوگ  اس شرط کی خلاف ورزی کریں گے جنہیںمحض شور کر کے ہی منتشر کیا جا سکتا ہے‘ اب انہیں قید اور بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسے روایتی ڈائریکٹ ایکشن حربوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو شہریوں کے لیے قانون توڑے بغیر ان احتجاجی مظاہروںمیں شرکت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔تاہم یہ بات احتجاج سے بھی اوپر کی ہے‘یہاں اقلیتوںکو نشانے پر رکھا گیا ہے۔ نئی شقوں کے مطابق منظوری کے بغیر کسی کی زمین پرگاڑی سمیت رہنا ایک فوجداری جرم بنا دیا گیا ہے؛ چنانچہ جپسی ‘روما اور ٹریولر کمیونٹیز کا تو ہماری زندگی سے نام ونشان تک مٹ جائے گا۔پولیس کے اختیارات میں اضافے کے بعد نہ صرف اسے نجی تعلیم اور ہیلتھ کیئر ریکارڈ تک رسائی حاصل ہو جائے گی بلکہ ہر کسی کو بلاوجہ روک کر اس کی تلاشی بھی لی جا سکے گی۔نسلی اقلیتی کمیونٹیز خاص طورپر پولیس کا ہد ف بن جائیں گی اور ان ناجائز اختیارات کا خمیازہ بھگتیں گی۔

نیشنیلٹی اینڈ بارڈرز بل بھی اتنا ہی سخت ہے۔برطانیہ کی پہلے سے سخت امیگریشن پالیسی مزید سخت ہو جائے گی‘ اس کا مقصد سیاسی پناہ لینے کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے والوں کا قلع قمع کرنا ہے مثلاًکشتیوں کے ذریعے آنے والوں کو جان بچانے کا جواز پیش کرنے کے باوجود چار سال تک جیل جانا پڑسکتا ہے۔اگر یہ لوگ جیل جانے سے بچ بھی گئے تو انہیں جیل نما گھروں میں رکھا جائے گا اور یہا ں تک انسانی حقوق ایکٹویسٹ گروپس کو بھی رسائی نہیںملے گی۔ برطانوی شہری بھی اس جال سے محفوظ نہیں ہیں۔اس قانون میں ایک ایسی شق بھی ڈال دی گئی ہے جس سے برطانوی حکومت کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ دہری شہریت کے حامل برطانوی شہریوں کی کسی نوٹس کے بغیر شہریت ختم کر سکے گی اور انہیں قانون سے بھی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ہیومن رائٹس ایکٹ میں مجوزہ اصلاحات کے بعد حکومت کے لیے کسی بھی غیر ملکی شہری کو جلاوطن کرنا آسان ہو جائے گا اور وہ بدسلوکی کا دعویٰ بھی نہیں کر سکے گا۔

یقینا ایسے خوفناک قوانین کو عدالت میں ضرور چیلنج کیا جائے گامگر حکومت کا اپنا ہی ایک منصوبہ ہے کہ جمہوریت سے زندگی کا سارا خون نچوڑ لیا جائے۔اسی طرح ایک الیکشن بل بھی ہے جس کے تحت ووٹر آئی ڈی کے بغیر لاکھو ں لوگ حقِ خود ارادیت کے استعمال سے محروم ہو جائیں گے ۔ اس قانون کا مقصد حکومت کو آزاد الیکشن ریگولیٹرز سے زیادہ بااختیار بنانا ہے ۔جب تک اس میں ترامیم نہیں کی جاتیں ‘آئینی طوپر اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔اختیار ات کی مرکزیت پر اصرار کرنا بھی جوڈیشل ریویواور کورٹس بل کا متقاضی ہے جو بورس جانسن اور ان کے وزرا کو جوڈیشل ریویو کے ان تمام فیصلوںکو مسترد کر نے کا اختیار دیتا ہے جو ان کے ایجنڈا کی راہ میں حائل ہو ں گے۔دی آن لائن سیفٹی بل جو بِگ ٹیک کو ریگولیٹ کر نے کے لیے وضع کیا گیا ہے‘مگر آزادی ٔاظہار کے بہت سے حامیوںکو  خدشہ ہے کہ اسے سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں اور بورس جانسن حکومت کے خلاف جانے والی رپورٹس کو سنسر کرنے کے لے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب پریشان کرنے والے ججز اور ضرور ت سے زیادہ ٹوہ میں رہنے والے صحافیوں کے لیے حکومتی امور میںمداخلت کی زیادہ گنجائش نہیں رہے گی۔

یہ بات سچ ہے کہ قومیں کب آمریت میں گھر جاتی ہیں‘ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا اور سیاسی طو رپر طاقتور انگریز قوم کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں ہے۔کئی عشروں سے ہمارے اندر اس کے سارے لوازمات موجود ہیں ۔قابل نفرت قوم پر ستی ہویاپریس کی وفاداری ہوجو سب سے زیادہ بولی دینے والے کو بیچ دی گئی ‘اور یہ گمراہ کن خوش فہمی کہ مطلق العنانی یہاں کبھی اپنے قدم نہیں جما سکتی کیونکہ ہم اسے کبھی ایسا کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ ان حالات میں بورس جانسن کے منصوبوں کی مشترکہ مخالفت بھی ثمر بار نہیں ہو سکی۔اسٹیبلشمنٹ سیاست کا بورس جانسن او ران کے حواریوں کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ آمریت کا یہ حملہ اتنا جامع ہے کہ اگر یہ ایک دفعہ قانون کی شکل بن گیا تو اسے غلط ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ان تمام سیاست دانوں کی طرح جو جمہوری پابندیوں سے ماورا رہنا چاہتے ہیں بورس جانسن بھی ایسے مستقبل کو نہ دیکھ سکے جس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی مگر ان کی اقتدار کی ہوس کے سائے ہم پر طویل عرصے تک مسلط رہ سکتے ہیں۔تاہم تاریخ کی کتابوں میں ان کا مقام محفوظ ہو چکا ہے ۔وہ ایک ایسے انسان کے طورپریاد رکھے جائیںگے جس نے اپنی آزادی اور اقتدار کی خاطر اپنے ہم وطنوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا تھا۔

(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز‘ انتخاب : دنیا ریسرچ سیل‘ مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement