ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت کے ریاستی الیکشن‘ مسلمان کیا کریں؟

تحریر: شکیل رشید

بھارت کی پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کے اعلان کے بعد سے یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ اس دوران مسلمان کیا کریں؟ کچھ کا کہنا ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ نہ بلند کریں البتہ کسی کو جتانے کی بات ضرور کریں۔ کچھ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کیوں نہ مسلمان اپنی ہی کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو بی جے پی کے حق میں بولتے نظر آ رہے ہیں۔ جی ہاں! آج بھی جبکہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے حالات روز بروز خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور بات ان کی زندگی اور موت اور کاروبار اور روزی و روٹی سے ہوتے ہوئے مذہب اور شناخت کے بحران تک آ پہنچی ہے‘ وہ سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں اور دریافت کرتے پھر رہے ہیں کہ ’’ہم کیا کریں؟‘‘ اور انہیں اس سوال کے بعد ایسے ایسے مشورے مل رہے ہیں جن سے ان کے دماغ کی کھڑکیاں کھلنے کے بجائے ان کی الجھنیں مزید بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ اب یہ دیکھ لیں کہ ایک طرف سے یہ آواز اٹھی ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ نہ لگائیں۔

یہ آواز جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید اسعد محمود مدنی کی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے ان کا مطلب غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں تک یہ پیغام پہنچانا ہو کہ اس ملک کے مسلمانوں کو ’’ووٹ بینک‘‘ نہ سمجھا جائے۔ یہ تو سچ ہے کہ اس ملک کی سیکولر سیاسی جماعتیں‘ کیا کانگریس، ایس پی اور بی ایس پی و این سی پی‘ سب ہی دلتوں، پچھڑوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنا ’’ووٹ بینک‘‘ سمجھتی چلی آئی ہیں۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ کانگریس نے ’’سیکولر ازم‘‘ ’’جمہوریت‘‘ کا خواب دکھا کر اور ’’بی جے پی اور شیو سینا سے ڈرا کر‘‘ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اپنے سیاسی اور اپنے لیڈران کے ذاتی مفادات کو خوب تقویت پہنچائی۔ اور رہے مسلمان‘ تو وہ جہاں گزرے ہوئے کل میں کھڑے تھے‘ آج بھی وہیں کھڑے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ آج وہ کل کے مقام سے بھی کئی قدم پیچھے چلے گئے ہیں۔ فسادات، اردو زبان، بابری مسجد اور مسلمانوں کی روزی روٹی، سرکاری ملازمتیں، تعلیمی و سماجی ذلت اور اقتدار سے محرومی، یہ سب کچھ کانگریس ہی کا ’’تحفہ‘‘ ہے۔ کچھ مسلمان لیڈر ایسے ضرور رہے ہیں جنہوں نے عام مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے عمل میں اپنے آقاؤں کا ساتھ دیا اور ذاتی طور پر خوب فائدہ اٹھایا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ مولانا مدنی نے اپنی بات مذکورہ تناظر ہی میں کہی ہو، مقصد سیاسی پارٹیوں تک یہ پیغام پہنچانا ہو کہ مسلمانوں کو ووٹ بینک نہ سمجھا جائے، ضروری نہیں کہ وہ تمہیں اور تمہارے سیاسی و ذاتی مفادات کو تقویت پہنچانے کے لییبی جے پی کو ہرانے کا نعرہ بلند کریں۔

اگر مولانا محمود مدنی اپنی بات سے مذکورہ پیغام ملک کی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں تک پہنچانا چاہتے تھے یا ہیں‘ تو ٹھیک ہے! ان کی بات بڑی حد تک درست کہی جا سکتی ہے لیکن بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک اپنے شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی کو ہرانے اور کسی کو جِتانے کے لیے ووٹ دیں؟ کیا ان کی بات اس حق کے منافی نہیں ہے؟ یہ سوال ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ کیوں مسلمان اور دیگر اقلیتیں بی جے پی کو ہرانے کے لیے ووٹ نہ دیں؟ کیا دیا ہے بی جے پی نے انہیں؟ اور آج جب اتر پردیش میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ 80 بنام 20 کا فارمولہ سامنے لا رہے ہیں‘ تو کیوں نا وہ جو 20 فیصد ہیں‘ ان کے خلاف ووٹ ڈالیں؟ جس طرح یوگی نے کھل کر بات کی ہے‘ وہ بھی کھل کر ووٹ ڈالیں؟ 

سچ ہے کہ کانگریس اور دوسری سیکولر پارٹیاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں و پچھڑوں کا ہر طرح سے استحصال کرتے چلی آئی ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ بھی استحصال کریں، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج مسلمانوں کی ’’نسل کُشی‘‘ کی بات کی جا رہی ہے، آج بڑے پیمانے پر ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر شدھی کی تحریک شروع ہے، اور ہر آئے دن کسی مسلم لڑکی کی ہندو لڑکے سے یا مسلم لڑکے کی کسی ہندو لڑکی سے ’’دھرم پریورتن‘‘ کرکے شادیاں کرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ یہ جمہوری حق ہے، آئین اس کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ آئین تو دوسرے مذاہب کو بھی اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم اپنے دھرم کو چھوڑ کر مسلمان ہو جائے تو اسے ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’غیر آئینی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر بہت سے لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیے جاتے ہیں۔ کیا مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم وغیرہ سلاخوں کے پیچھے نہیں ہیں؟ ایک کا ’’قانونی‘‘ عمل دوسرے کے لیے ’’غیر قانونی‘‘ بن جاتا یا بنا دیا جاتا ہے۔ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج کے دنوں میں مسلم شعار پر طعن و تضحیک کی ناپاک جسارت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حرکتیں کرنے والے سر آنکھوں پر بٹھائے جا رہے ہیں؟ اور ایک بڑا خطرہ تو ابھی آنا ہے، شہریت کے چھین لیے جانے اور ملک بدر کیے جانے کا خطرہ۔

یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ بی جے پی کو مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہیے۔ بار بار یہ بات کہی جا چکی ہے۔ الیکشن کے مواقع پر تو اب بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ تک نہیں دیتی۔ یوگی 20 اور 80 کا فارمولا سامنے لائے ہیں۔ 80 فیصد کا مطلب تمام ہندو اور 20 فیصد کا مطلب 15 فیصد مسلمان اور 5 فیصد دیگر اقلیتیں۔ یہ 20 فیصد یوگی نے پہلے ہی سے اپنے ووٹروں کی فہرست میں سے منہا کر دیے ہیں۔ انہیں اِن ووٹوں کی ضرورت نہیں‘ تو پھر کیوں نہ کھل کر بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا جائے؟ ہاں! اگر بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کو کسی طرح کی افہام و تفہیم کا کوئی اشارہ ملتا تو بات الگ تھی۔ تب سیاسی تقاضوں کی بنا پر اس کی طرف ایک قدم بڑھایا جا سکتا تھا۔ جہاں تک بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی بات ہے تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو محض ’’ووٹ بینک‘‘ نہ سمجھیں۔ اگر مسلمان یہ بات سیکولر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ذہنوں میں بٹھانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ محض ووٹ بینک نہیں تو پھر انہیں’’مالِِ مفت‘‘ نہیں سمجھا جائے گا، انہیں اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے گا، ہر سیاسی پارٹی یہ کوشش کرے گی کہ مسلمانوں کو ’’ناراض‘‘ نہ کیا جائے۔ اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان مسلم لیڈروں کو‘ جو اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مسلم ووٹروں کو بیوقوف بنانے سے بھی نہیں چوکتے‘ دھتکار دیا جائے۔ 

الیکشن کے اس موسم میں کچھ لوگ مسلمانوں کی پارٹیوں کے گن گائے جا رہے ہیں۔ ویسے ’’اپنی پارٹی اور اپنی قیادت‘‘ کا نعرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ نعرے ’’دوسروں کو متحد کرنے والے‘‘ نہ ہوں۔ نعرے سیاسی ہوں اور اپنے مسائل کو اجاگر کرتے ہوں، یہ فرقہ وارانہ اور مذہبی نہ ہوں۔ ایسے نعرے ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں یہ بات نقصان دہ ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔ اسد الدین اویسی ایک اچھے لیڈر ہیں اور انہیں اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور قائدین سے یہ دریافت کرنے کا حق ہے کہ کیوں ایک ایسی سیاسی جماعت کو‘ جس کا سربراہ ایک مسلمان ہے‘ مین سٹریم سیاسی دھارے سے علیحدہ رکھا جا رہا ہے‘ کیوں اس کے ساتھ اتحاد نہیں کیا جا رہا۔ آج کے دنوں میں یہ سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ حال ہی میں ’’بھیم آرمی‘‘ کے رہنما چندر شیکھر آزاد نے ایک اچھی بات کہی ہے کہ سماج وادی پارٹی دلت ووٹوں کو حاصل کرنا چاہتی ہے مگر دلت لیڈر شپ نہیں چاہتی۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کے ووٹ مطلوب مگر مسلم قیادت نامنظور۔ یہ جمہوریت کے منافی عمل ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کو ہر ایک ذات پات اور ہر مذہب کے افراد کو اپنا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوال اب بھی وہی ہے کہ مسلمان کیا کریں؟ مسلمان بس یہ کریں کہ اپنے ووٹوں کو تقسیم نہ ہونے دیں، ان کے مسائل کو جو پارٹی فوقیت دے‘ جو پارٹی مسلمانوں کو انتخابی میدان میں اتارے اور جو پارٹی واقعی فرقہ پرستوں کو ہرانے کی سکت رکھے‘ اسے ووٹ دیں۔ نہ جذبات میں بہیں، نہ ہی فرقہ پرستی اور نہ مذہبی نعروں کو خود پر حاوی ہونے دیں۔

(بشکریہ: ممبئی نیوز، تعمیر نیوز انڈیا)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement