ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی معیشت زوال پذیر ہے

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

ایک عام امریکی ورکر جو تنخواہ اپنے گھر لے کر جا رہا ہے اگر اسے پیمانہ مان لیا جائے‘ جسے ہمارا ادارتی بورڈ بھی امریکی معیشت کی صحت کو جانچنے کے لیے بہت اہم سمجھتا ہے‘ تو صدر جو بائیڈن کا وائٹ ہائوس میں پہلا سال اتنا قابل فخر ثابت نہیں ہوا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ورکرز کی تنخواہو ں کے چیکس کو دیکھیں تو ان پر لکھے ڈالرز میں تو اضافہ ہوا ہے مگر دیکھا جائے تو گزشتہ کئی عشروں کے دوران ہونے والے افراطِ زر نے جس طرح ڈالر کی قدر کم کی ہے تو ورکرز کے لیے موجودہ افراطِ زرکا مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

صدر جو بائیڈن جب امریکا کے صدر بنے تھے تو انہیں کووڈ کے بطن سے جنم لینے والا ایک سنگین معاشی بحران ورثے میں ملا تھا اور ان کی حکومت اس کریڈٹ کی بجا طور پر مستحق ہے کہ اس نے اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے قوم کی ضروریات اور توقعات کے عین مطابق مالیاتی اقدامات کیے۔ جو بائیڈن حکومت کا ایک شاندار کارنامہ مارچ میں منظورکیا جانے والا امدادی پیکیج تھا جس نے عام امریکی شہری کو کورونا کے معاشی اثرات سے تحفظ فراہم کیا اور دیگر ممالک کے مقابلے میں ان کی جلد از جلد معاشی ریکوری میں اعانت کی۔ سادہ زبان میں ورنہ صورت حال اس سے کہیں سنگین اور بدتر بھی ہو سکتی تھی۔

امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے جمعہ کے روز کہا ہے ’’عام روایتی معیار سے دیکھا جائے تو امریکی معیشت ہماری امید افزا توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے ریکور ہوئی ہے‘‘۔ امریکی شہریوں کی اکثریت حکومت کے معاشی ریکارڈ کے ان بلند بانگ دعووں سے اتفاق کرتی نظر نہیں آتی اور یہ بھی ایک پراسرار سوال ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ایک عام امریکی ورکرز اپنی موجودہ تنخواہ کے ساتھ اتنے برگرز نہیں خرید سکتا جتنے وہ گزشتہ سال خرید سکتا تھا۔ (برگر کو معیار بنا کر افراطِ زر کو ماپنا بھی اکانومسٹ میگزین کے بِگ میک انڈیکس کی نئی چال لگتی ہے جو کلاسیک برگر کی قیمت کو مختلف کرنسیوں کی مدد سے ٹریک کرتا ہے) حکومت کے کنزیومر پرائس انڈیکس میں 2021ء میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 1982ء کے بعد سب سے بڑی چھلانگ ہے۔ صدر بائیڈن کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور پے درپے ہونے والے پولز سے پتا چلتا ہے کہ صدر بائیڈن کے معاشی فیصلوں سے امریکی عوام اتنے خوش اور مطمئن نہیں ہیں۔ سی این بی سی کے تازہ ترین پول کے مطابق دو تہائی عوام کا کہنا ہے کہ حکومت افراطِ زر پر ناکافی توجہ دے رہی ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران 6 ملین سے زائد نئی ملازمتیں دستیاب ہونے کے باوجود امریکی قوم کا موڈ اتنا خوشگوار نظر نہیں آتا۔ ہماری لیبر فورس‘ جن کی عمریں زیادہ تر 25 اور 54 سال کے درمیان ہیں‘ 1990ء کے بعد کساد بازاری کے تین ادوار کے مقابلے میں اب زیادہ تیزی سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب رہی ہے۔ معاشی ترقی یا مجموعی قومی پیداوار میں معاشی بحران سے پہلے کے لیول کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہاں وائٹ ہائوس اپنے آپ کو ایک ایسے فزیشن کی طرح محسوس کر رہا ہے جس نے بڑی کامیابی سے کسی مرض کا علاج کیا ہے مگر اس نے مریض کو اس بات کے لیے تیار نہیں کیا کہ اس میڈیسن کے سائیڈ ایفیکٹس کیا کچھ ہو سکتے ہیں یا یہ کہ اس کی مکمل ریکوری اور صحت یابی میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ بہت زیادہ درد یا تکلیف سے تو بچا لیا گیا ہے مگر ان باتوں کی تعریف کرنا مشکل لگ رہا ہے جو نہیں کی جا سکیں۔ معاشی آئوٹ لک کو دیکھا جائے تو یہ بڑی زبردست اور توانا ہے مگر ان باتوں کو کیسے سراہا جائے جو ابھی تک نہیں ہو سکیں‘ عین اس وقت جب ہم سب کو افراطِ زر کا سامنا ہے۔

یہ بات کسی کے لیے بھی حیرانی کا باعث نہیں ہے کہ کساد بازاری ہمیشہ نامعلوم قسم کی مشکلات پیدا کر تی ہے۔ اب ہمیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ جب معیشت بحالی کے عمل سے گزرتی ہے تو کچھ غیر متوقع اور پریشان کن مسائل بھی ان کے ساتھ ہی جنم لیتے ہیں۔ کاریں خریدنے والے لوگ زیادہ ہیں جبکہ کاریں کم دستیاب ہیں۔ کھانا کھانے والے ریستوران میں دوبارہ جانے کے لیے ویٹرز سے زیادہ بے تاب نظر آتے ہیں۔ ملکی درآمدات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ہماری بندر گاہیں کارگوز سے بھری پڑی ہیں۔ ہماری حکومت نے بعض شعبوں میں ابھی تک ایسے اقدامات نہیں کیے جو ہمارے ہاں افراطِ زر کو روکنے یا اس کے اثرات کو زائل کرنے میں ہماری مدد کر سکتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر جو ٹیرف عائد کیا تھا‘ وہ آج بھی نافذ ہے، قانونی طریقے سے امیگریشن میں کمی جاری ہے جس کے نتیجے میں لیبر کی قلت کا مسئلہ زیادہ ابتر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

صدر کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے گولڈی لاکس ریکوری کا سنہری موقع کھو دیا ہے۔ (یعنی نہ زیادہ ٹھنڈا نہ زیادہ گرم)۔ ان کا موقف ہے کہ اگر معاشی امداد کی ایک چھوٹی ڈوز دی جاتی تو اس سے اقتصادی ترقی بھی ہوتی اور افراطِ زر میں بھی زیادہ اضافہ نہ ہوتا مگر یورپی ممالک‘ جنہوں نے مالی امداد کی نسبتاً چھوٹی ڈوز دی تھی‘ اب انہیں کم افراطِ زر کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی معاشی بحالی کی رفتار بھی سست ہے۔ ناقدین کو وہ ماضی بھی ذہن میں رکھنا چاہئے جسے گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد بھی امریکا نے مالی امداد کی ایک ناموزوں ڈوز دی تھی؛ چنانچہ افراطِ زر تو ایک جگہ منجمد رہا تھا مگر یہ ان لوگوں کے لیے اتنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوا تھا جو سالہا سال سے کام کے منتظر بیٹھے تھے۔ اس وقت ہمیں سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ معاشی بحالی کی کوششوں کو نقصان پہنچائے بغیر افراطِ زر کو کیسے نیچے لایا جائے۔ اور یہ کام زیادہ تر فیڈرل ریزرو کے کرنے کا ہے نہ کہ صدر جو بائیڈن یا ان کی حکومت کا۔ قوم کی معاشی قسمت بدلنے میں صدر کے کردار کے بارے میں عموماً مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے؛ تاہم اگر حکومت وہ کام مکمل کرنے میں کامیاب رہتی ہے جو اس نے شروع کر رکھا ہے تو یہ حکومت ان کوششوں کی کامیابی کی مستحق ٹھہرتی ہے جو وہ امریکی معیشت کی کے لیے کر رہی ہے۔

ایک ناخوشگوار حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال امریکا کو زیادہ مدت تک معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے پاس معاشی بحالی کا ایسی چوائس نہیں تھی لہٰذا اس سے ملنے والے فوائد میں افراطِ زر کی بلند شرح کی وجہ سے کمی واقع ہو گئی۔ صدر جو بائیڈن نے درست چوائس کا انتخاب کیا تھا مگر صدر کو سیاسی طور پر اور امریکی قوم کی معاشی لحاظ سے اس کی حقیقی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔

(انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement