ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایران‘ سعودیہ معاہدے سے وابستہ امیدیں …(1)

تحریر: فرناز فصیحی

سالہا سال سے مشرقِ وسطیٰ کا ایک طاقتور ملک ہونے کے ایرانی مؤقف کو اب کئی محاذوں پر ایک مختلف صورت حال کا سامنا ہے۔ اس کے کئی ہمسایہ ممالک نے آج کل اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ ایران کے ایٹمی ہتھیاروں اور جوہری پروگرام کے تناظر میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اس پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ ان سے بچنے کے لیے کئی علاقائی ممالک نے اس کے لیے مالیاتی راہداری کی سہولتیں فراہم کر رکھی تھیں‘ اب وہ بھی ختم ہو چکی ہیں۔ گزشتہ سات برس سے ایران اور سعودی عرب‘ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بھی منقطع چلے آ رہے تھے۔ دونوں ممالک یمن میں ایک پراکسی جنگ لڑ رہے تھے اور اس کے علاوہ لبنان اور شام میں بھی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے؛ تاہم اسی مہینے ہمیں اس وقت ایک بڑی پیش رفت دیکھنے کو ملی جب ایران نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھایا اور اس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔

سعودی عرب کو اس خطے میں ایران کا سب سے بڑا حریف گردانا جاتا تھا۔ خطے کے دیگر عرب ممالک پر بھی اس کا اثرو رسوخ قائم ہے جبکہ ایران کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں یہ معاہدہ کرانے میں بنیادی کردار چین نے ادا کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک نے اس امر پر اتفاقِ رائے کا اظہار کیا کہ دو مہینے کے اندر اندر دونوں ممالک اپنے اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے کے انتظاما ت کریں گے، سکیورٹی کے ایک سابقہ معاہدے کو بحال کیا جائے گا، ایک دوسرے کی جغرافیائی سرحدوں کا احترام کرتے ہوئے حملے نہیں کیے جائیں گے، حتیٰ کہ پراکسی جنگ کے ذریعے بھی ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا، نیوز میڈیا اور دیگر محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کرنے کی مہم ختم کر دی جائے گی اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی پالیسی ترک کردی جائے گی۔ ایرانی حکومت کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے ایک سیاسی تجزیہ کار علی اکبر بیہم نیش کا کہنا ہے ’’پہلے ہم ایک ایسی حکمت عملی پر کاربند تھے جس میں دونوں ممالک اپنے تئیں ایک شکست خوردہ صورتحال سے دوچار تھے مگر اب ہم نے اس حکمت عملی میںتبدیلی کرتے ہوئے ایک نئی اپروچ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں دونوں ممالک کے لیے وِن وِن یعنی ایک آبرومندانہ صورتحال ہو گی۔ اب ہمیں اس امر کا بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ اگر ہم اپنے بہت سے مسائل حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں عرب دنیا کے بڑے بھائی یعنی سعودی عرب کے ساتھ امن و آتشی کی فضا قائم کرنا ہو گی۔ ہمارے درمیان سات سال سے ایک کشیدہ صورتحال برقرار ہے اور اس دشمنی سے ہمارے مفادات کو بالکل کوئی فائدہ نہیں ہوا‘‘۔

ایران اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات میں خرابی 2016ء میں اس وقت پیدا ہوئی جب سعودی عرب میں ایک عالم کو سزائے موت دی گئی۔ اس کے ردِعمل میں تہران میں ایک مشتعل ہجوم نے سعودی عرب کے سفارتخانے پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کر ڈالا۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہے تو یہ خطے میں ایک بڑی تبدیلی کا شاخسانہ ثابت ہو گی۔ یمن میں جاری پراکسی جنگ اپنے اختتام کو پہنچے گی جبکہ لبنان اور شام میں جاری انتشار اور بحران کو بھی سیاسی طریقہ کار سے حل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ پچھلے ہفتے اقوام متحدہ نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں ہونے والے حالیہ معاہدے کے نتیجے میں یمن میںجاری جنگ کو بھی مذاکرات کے پُرامن طریقے سے ختم کرانے میں سہولت ملے گی۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر اس معاہدے پر مؤثر پیشرفت ہوئی تو اس سے ایران کی موجودہ حکومت کو زیادہ ثمرات ملیں گے۔ ملک میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں میں اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ مظاہر ے اس وقت پھوٹ پڑے تھے جب آج سے چھ مہینے قبل ایک بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی اس وقت پولیس کی حراست میں جاں بحق ہو گئی تھی جب اسے حجاب قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ جب ایرانی حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا تو اس کے نتیجے میں اسے مغربی ممالک میں بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایرانی حکومت کے ساتھ جو ایٹمی معاہدہ ہوا تھا، صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد 2018ء میں امریکہ نے اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ چونکہ تب سے اس ضمن میں ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ رکا ہو ا ہے‘ اس لیے اس معاہدے کی بحالی کے فی الحال امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔ اگر اس معاہدے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو ایران کی تیل کی آمدنی اور بینکنگ کے شعبے پر لگی ہوئی معاشی پابندیاں اسی طرح برقرار رہیں گی جس کے نتیجے میں اس کی معاشی زبوں حالی کا سلسلہ بدستور جاری رہنے کا امکان ہے۔ روس یوکرین سے جنگ کے لیے ایران سے جو ڈرونز حاصل کر رہا ہے‘ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے پوری کوشش کی ہے کہ روس کو یہ ڈرونز فراہم کرنے سے روکا جائے جبکہ دوسری جانب ایران کی پوری کوشش ہو گی کہ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ممالک کے دوستانہ تعلقات قائم رہیں یا کم از کم جہاں تک ممکن ہو سکے کوئی ملک اس کے دشمنوں کی صفوں میں شامل نہ ہو۔ سعودی عرب ایک طاقتور علاقائی ملک ہے اور حرمین شریفین وہاں ہونے کی وجہ سے اسے مسلم ممالک کا لیڈر سمجھا جاتا ہے اور اس کے مغربی ممالک کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم ہیں۔ ایران سعودیہ معاہدہ ہونے کے بعد ایران نے بڑی تیزی سے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی فوری طور پر رابطے بحال کر لیے ہیں بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اب اس کا اگلا ایجنڈا بحرین کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا ہے اور ممکن ہے کہ اب مصر بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نصر خانانی نے اسی مہینے یہ کہا ہے ’’خوش قسمتی سے ہمیں اس خطے سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ ایسی مثبت پیشرفت خطے کے دیگر ممالک کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ بحرین۔ ہمیں سفارتکاری پر بھرپور اعتماد کرنا چاہئے اور اس سمت میں مزید اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ نصر خانانی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ایران اور مصر کے درمیان خوشگوار تعلقات اور خطے میں وسیع تر تعاون کی فضا سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے چاہئیں۔ (جاری) 

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں