ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چینی صدر کا دورۂ روس …(1)

تحریر: کرِ س بکلے

چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے روس کا دورہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ امن کے سفیر بن کر روس گئے ہیں تاکہ یوکرین جنگ ختم کرکے خطے میں امن کی راہ ہموار کی جائے؛ تاہم ان کی روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنایا جائے‘ جس کا پس پردہ محرک یہ ہے کہ جب سے چین نے شاہراہِ ترقی پر اپنا سفر شروع کیا ہے‘ امریکہ نے اس کے خلاف ایک مخاصمانہ مہم شروع کر رکھی ہے؛ تاہم دو طرفہ ملاقاتوں میں یوکرین کا معاملہ اس وقت ثانوی حیثیت اختیار کر گیا جب صدر شی جن پنگ نے روس کے ساتھ ایک سیاسی، سفارتی، معاشی اور عسکری پارٹنر کے طور پر ایک ٹھوس یکجہتی کے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں سپر پاورز نے مل کر امریکی بالادستی اور مغربی ممالک کی سرپرستی میں ایک عالمی نظام مسلط کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صف بندی کا اعلان کیا ہے۔ اس دورے سے صدر شی جن پنگ کے اس عزم کی بھی بھرپور عکاسی ہو رہی ہے کہ چین کے روس کی طرف جھکائو کا مقصد‘ مل کر امریکہ کی ان کوششوں کا راستہ مسدود کرنا بھی ہے جسے وہ چین کے مکمل محاصرے اور گھیرائو کا نام دیتا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس تین روزہ دورے کے ذریعے‘ جو بدھ کے روز اختتام پذیر ہوا‘ اپنے اپنے عوام اور مغربی ممالک کو یہ سگنل دیا ہے کہ دونوں ممالک میں باہمی تعاون اور شراکت داری کا بانڈ بہت مضبوط اور مستحکم ہے اور ان کے خیال میں یوکرین پر روس کے حملے کے تیرہ مہینے بعد یہ تعاون دونوں ممالک کے لیے ناگزیر بھی ہے۔ دورے کے اختتام پر دونوں رہنمائوں نے دنیا کے حوالے سے اپنے وژن کا اظہار نو نکات پر مشتمل اپنے مشترکہ اعلامیے کے ذریعے کیا ہے جس میں کثیر جہتی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ان نکا ت میں تائیوان کا مسئلہ، ماحولیاتی تبدیلیاں اور منگولیا کے ساتھ تعلقات جیسے متنوع مسائل بھی شامل ہیں۔ نیز دونوں ممالک اس تشویش کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ امریکہ ایک بہتر اور منصفانہ دنیا کی راہ میں اکثر رکاوٹیں کھڑی کرتا رہتا ہے۔

الیگزینڈر کورولیف یونیورسٹی آف نیو سائوتھ ویلز میں ایک سینئر لیکچرر کے حیثیت سے پڑھا رہے ہیں اور ان کی خصوصی دلچسپی چین‘ روس دوطرفہ تعلقات میں ہے۔ الیگزینڈر کورولیف کی رائے ہے کہ ’’مجھے تو یہ ایک عشرے یا اس سے بھی پہلے کا ایک تزویراتی منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کا یہ دورہ یوکرین جنگ پر کسی فوری ردعمل کے اظہار کے لیے نہیں ہے۔ اس مشترکہ اعلامیے میں بیان کردہ اہم نکات میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس میں امریکہ پر بار بار تنقید کی گئی ہے۔ اب یہ دھمکی خفیہ اور کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک علانیہ اور واضح خطرہ ہے‘‘۔ تاہم یوکرین جنگ کو ختم کرنے کی کمزور سی تجویز کا ذکر اس مشترکہ اعلامیے کے آخری حصے میں نظر آتا ہے مگر اس میں بھی پیش رفت کے حوالے سے کوئی مخصوص طریقہ کار اور پیشکش نہیں کی گئی۔ جو مغربی ممالک اس جنگ میں یوکرین کو سپور ٹ کر رہے ہیں انہیں ایک وارننگ دیتے ہوئے اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس جنگ کے بحران کے حل کی تلاش کرتے ہوئے اس امر سے خصوصی اجتناب کیا جائے کہ  ایسے نئے بلاک بنائے جائیں جن کے نتیجے میں دنیا ایک بار پھر تصادم اور محاذ آرائی کے دلدل میں پھنس جائے اور جو مخاصمت اور کشیدگی کی آگ کو مزید ہوا دینے کا باعث بنیں‘‘۔ چین اور روس کے رہنمائوں نے معاشی تعاون بڑھانے کے علاوہ اس حوالے سے بھی بات چیت کی کہ کس طرح چین کے سرمایہ کاروں کو روس کے مختلف پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔ دونوں رہنمائوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ صدر شی جن پنگ تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ انہوں نے صدر ولادیمیر پوتن کی اگلی صدارتی مدت کے لیے امیدوار ہونے کے فیصلے کی بھی حمایت اور توثیق کر دی جس میں روسی عوام کے لیے ایک اشارہ مضمر ہے کہ انہیں اس امرکا پورا یقین ہے کہ اگلے الیکشن‘ جو ایک سال کے بعد ہونے والے ہیں‘ میں روسی عوام یقینا صدر ولادیمیر پوتن کو ہی سپور ٹ کریں گے۔

ماریہ سیپنی کوفا‘ جو جارج ٹائون یونیورسٹی کی ایک سکالر ہیں اور یہاں چین اور روس میں سیاسی روابط کو سٹڈی کر رہی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’دراصل چینی صدر شی جن پنگ نے صدر ولادیمیر پوتن کی نئی صدارتی الیکشن کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا اہم سگنل ہے جو ان کی دوستی کی حدود کی ایک جھلک پیش کر رہا ہے، نیز وہ واقعی صدر پوتن کو مستحکم دیکھنے کے متمنی  ہیں‘‘۔ مگر جہاں صدر پوتن چین کی طرف سے ایک واضح عزم کا اظہار چاہتے تھے‘ صدر شی جن پنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی سپورٹ کے لیے ایک بلینک چیک پر دستخط کرتے کرتے رک گئے۔ اگرچہ صدر پوتن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چین کو قدرتی گیس فراہم کرنے کے لیے ایک نئی پائپ لائن 2030ء تک مکمل کی جائے گی مگر صدر شی جن پنگ نے اس معاہدے کی تصدیق نہیں کی۔ چین نے روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک نپی تلی زبان استعمال کی ہے۔ جب یوکرین حملے سے تین ہفتے قبل گزشتہ سال دونوں رہنمائوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا تو اس میں کہا گیا تھا کہ بیجنگ اور ماسکو میں ’’ایک لامحدود دوستی پائی جاتی ہے‘‘۔ اس مرتبہ انہوں نے اس اعلان کے ساتھ ایک واضح حد بندی طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی روایتی سیاسی اور عسکری اتحاد قائم کرنے کی طرف نہیں جا رہے۔ چینی صدر اور دیگر چینی حکام نے اس مرتبہ ’’لامحدود دوستی‘‘ والے دعوے کرنے سے گریز کیا ہے حالانکہ صدر پوتن اس طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔

ماریہ سیپنی کوفا کا مزیدکہنا ہے کہ ’’تاہم پھر بھی صدر شی جن پنگ اور صدر ولادیمیر پوتن ایک دوسرے کی تعریف کرنے کا کوئی علامتی موقع بھی ضائع نہیںجانے دیتے اور اس بات کی ایک اپنی اہمیت ہے‘‘۔ ماریہ نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ دونوںممالک کے سرکاری براڈکاسٹرز نے مشترکہ تاریخی مواد شیئر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے اور اس بات کو اجاگرکرنے کے عزم کا اظہار کیا کہ دونوںممالک اپنے عوا م کو مغربی ممالک کے سیاسی اثر و رسوخ کے خلاف آگاہی دیں گے۔ ماریہ کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ’’یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خواہ محدود پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو‘ یہ شراکت داری پھر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ نیز یہ کہ چین مغرب کے خلاف تنہا نہیں ہے۔ روس کو بھی یقینا چین کی سپورٹ حاصل ہے‘‘۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement