ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

غریبوں کا ہارورڈ: بیئر فٹ کالج

تحریر: نکولس کرسٹوف

یہ بھارتی دیہاتیوں کا ہارورڈ کالج ہے۔ ایک پچاس سالہ پرانا ادارہ‘ جسے بیئر فٹ کالج کہا جاتا ہے اور یہ دنیا بھر کے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے اپنے کورسز اور کتابوں کی پیشکش کرتا ہے۔ شاید امریکی طلبہ کے لیے بھی۔ بیئر فٹ کالج ہر اس کالج کی طرح‘ جسے میں نے دیکھا ہے‘ لوگوں کو بااختیار بناتا ہے اور یہاں میں آپ کو اس کی حقیقی تصویر دکھاتا ہوں کہ یہ راجستھان میں کھڑا کیسا دکھائی دیتا ہے۔

چھوٹا دیوی نامی عورت جو ایک دن کے لیے بھی سکول نہیں گئی‘ ایک سرکٹ بورڈ کے اوپر جھکی رنگدار ہدایات کے مطابق بڑی احتیاط سے ڈائیوڈز اور رزسٹرز کو سولڈر سے جوڑ رہی ہے۔ چھوٹا دیوی نہیں جانتی کہ اس کی عمر کیا ہے، نسلی طور پر وہ ایک دلِت ہے یعنی سب سے نچلی ذات‘ جسے کبھی اچھوت کہا جاتا تھا اور یہ سب سے نچلے گروپ بالمیکی سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ خاکروب کا کام کرتے ہیں۔ مگر اب چھوٹا دیوی سولر پاور کی کاریگر بن رہی ہے۔ بیئر فٹ کالج چھوٹا دیوی جیسے اَن پڑھ اور نچلی ذات کے دیہاتیوں کو شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹین بنانا اور سولر سسٹم لگانا سکھا رہا ہے۔ تین سے چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد یہ لوگ اپنی کمیونٹی میں واپس جا کر باعزت روزگار کمانا شروع کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی کمیونٹی میں بجلی کے بغیر چلنے والی سولر پاور لے آتے ہیں۔ اس سارے پروسیس میں وہ اپنا سماجی مرتبہ بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔

چھوٹا دیوی نے شرماتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے شوہر سے زیادہ کام جانتی ہوں‘‘۔ اب وہ گھر جاتی ہے تو لوگ اسے میڈم کہہ کر بلاتے ہیں‘ جو ایک مذاق بھی ہے مگر اس میں عزت اور احترام کا اظہار بھی ہے۔ اب اس کی ماہانہ آمدنی اسی ڈالرز ہو گئی ہے اور چھوٹا دیوی اپنا قرضہ واپس کرنے کا پلان کر رہی ہے، وہ ایک سیل فون خرید نا چاہتی ہے اور ایک نیا گھر تعمیر کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔ اس کے پانچ بچے ہیں اور ان میں سے اب کوئی بھی سکول نہیں جاتا۔ بیئر فٹ کالج کے ٹرینرز نے اسے اس قابل بنا دیا ہے کہ ’’میں ایسی خواتین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں جو لکھنا پڑھنا جانتی ہیں اور اب میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں‘‘۔

بنکر رائے کی عمر ستتر سال ہے اور وہ تین بار بھارت کا قومی سکواش چیمپئن رہ چکا ہے۔ وہ مہاتما گاندھی کا پیروکار ہے اور 1972ء میں وہ اس دور دراز گائوں میں یہ دیکھنے آیا تھا کہ یہاں چھائی غربت کو مٹانے میں وہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اُسی سال اس نے یہاں بیئر فٹ کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ بنکر رائے کا سارا فوکس کم پڑھے لکھے اور سماج کے دھتکارے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ٹیکنالوجی کی مہارتیں دینے پر تھا۔ درحقیقت یہی وہ لوگ تھے جنہیں مدد کی اشد ضرور ت تھی کیونکہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ غربت پر قابو پانے کے لیے ان لوگوں میں عزتِ نفس اور خود اعتمادی کے بیج بونا ضروری ہے۔ بنکر رائے نے مجھے بتایا کہ ’’ہم کوئی مختلف سا کالج بنانا چاہتے تھے جہاں لوگوںکو کوئی سزا نہ دی جائے کیونکہ وہ اَن پڑھ ہیں‘‘۔ چنانچہ بیئر فٹ کالج صرف ان پڑھ دیہاتی لوگوں کو ہی لیتا ہے۔ ان کی اکثریت دلت یا خواتین پر مشتمل ہوتی ہے اور ہم انہیں ٹیکنیکل مہارتیں سکھاتے ہیں جیسا کہ شمسی توانائی کے سسٹم کی تنصیب وغیرہ۔ فائونڈیشنز کی فنڈنگ، عطیات اور بھارتی حکومت کی مدد سے یہ کالج تعلیم کی کلاسز، صحت کی مہمات، آبی وسائل کا شعبہ، سٹڈی سنٹرز اور ایک فیکٹری بھی چلاتا ہے۔ بنکر رائے کے مطابق یہاں کروڑوں افراد ناخواندہ ہیں اور انہیں ابھی بہت کام کرنا ہے۔

شہری اور دیہاتی کی تقسیم دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ دیہی امریکہ کی طرح دیہی بھارت میں بھی مواقع کی کمی ہے۔ جو لوگ پیچھے رہ جا تے ہیں‘ وہ مایوسی کا شکار ہوکر اپنے طور پر نشہ آور ادویات لینا شروع کر دیتے ہیں، ذات پات اور صنفی تفریق ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بیئر فٹ کالج بھی پیشہ ورانہ مہارتیں سکھا کر امریکہ کے کمیونٹی کالجز کی طرح بھارت میں مواقع فراہم کرتا ہے مگر یہاں انتہائی مفلس افراد پر فوکس ہوتا ہے۔ اس سے پورے سماج کو فائدہ ہوتا ہے۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کسی قوم کا سب سے کم استعمال شد ہ اثاثہ ہوتے ہیں۔ بیئر فٹ کالج کا اولین اقدام دلت کمیونٹی کو واٹر پمپ نصب کرنے کی ٹریننگ دینا تھا اور اس کا آغاز ان کی اپنی کمیونٹیز میں کیا گیا تھا کیونکہ انہیں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے کنووں سے پانی بھرنے کی اجازت نہیں تھی۔ انقلاب یہ آیا کہ گائوں کے پانی کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ اچھوتوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ جب اعلیٰ ذات کے دیہاتیوں نے اپنے کنویں سوکھتے دیکھے تو انہوں نے بھی دلت اچھوتوں کے واٹر پمپس سے پانی لینا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو وہ کہتے کہ ’’ہم صرف اپنے جانوروں کے لیے پانی لیتے ہیں‘‘ جب ان کے اپنے واٹر پمپ خراب ہونے لگے تو وہ دلت کاریگروں کو بلانے پر مجبور ہو گئے۔ دلت اچھوتوں کے بارے میں تو یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی خوراک اور پانی کو چھو سکیں مگر یہ سب کچھ ان کے سر چکرانے کے لیے کافی تھا۔بھارت کے دیہات میں اپنائی جانے والی اس اپروچ سے ہم امریکہ سمیت دنیا بھر میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ میں بھی جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں انہیں ٹیکنیکل ٹریننگ دے کر ایک باعزت روزگار کمانے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں الیکٹریشن، وِنڈ ٹربائن انسٹالر، ترکھان اور اس طرح کے بہت سے ہنر سکھائے جا سکتے ہیں۔ خواہ تاخیر سے ہی سہی مگر اب ہمارے ہاں یہ اعتراف کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم ہر وقت رسمی تعلیم اور ڈگریوں کے لیے متفکر رہتے ہیں مگر بھلا ہو پینسلوینیا کا کہ اس نے اِس سال ریاست کی طرف سے ایسے لوگوں کے لیے بھی ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا شروع کر دیے ہیں جن کے پاس چار سالہ ڈگری والی تعلیم نہیں ہوتی۔

سالہا سال گزرنے کے بعد بیئر فٹ کالج کو بھی اتنی بین الاقوامی اور مقامی فنڈنگ ملنا شروع ہو گئی ہے کہ وہ اپنے پرانے منصوبوں میں توسیع کرنے کے علاوہ نئے پروجیکٹس بھی شروع کر سکتا ہے۔ اب اس کالج کے پورے بھارت میں واٹر پروگرامز چل رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اب افریقہ سے بھی خواتین کو یہاں لا رہی ہے اور وہ بیئر فٹ کالج سے سولر انجینئرنگ میں چھ‘ چھ مہینے کے کورسز کر رہی ہیں اور جب وہ اپنے گھروں کو واپس جاتی ہیں تو اپنے گائوں کو شمسی بجلی فراہم کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اب یہاں ’’بااختیار‘‘ ہونا محض لفاظی ہی نہیں بلکہ ایک لائف سٹائل بن چکا ہے۔بنکر رائے کا کہنا ہے کہ ’’’اکیسویں صدی کے اَن پڑھ وہ نہیں ہیںجو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے بلکہ وہ لوگ اَن پڑھ ہیں‘ جو سیکھنے اور مزید سیکھنے سے قاصر ہیں‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement