ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چین‘ امریکہ تعلقات میں سرد مہری …(1)

تحریر: پیٹر بیکر

صدر بائیڈن اور ان کے اتحادیوں نے اپنا زیادہ وقت جاپان کے شہر ہیروشیما میں گروپ سیون کے سربراہی اجلاس میں گزارا اور یہیں پر یوکرین کے لیے اسلحے کی فراہمی کے نئے پیکیج کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اسے ایف 16 لڑاکا طیارے دینے کے لیے بھی راہ ہموار کی گئی۔ انہوںنے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے ساتھ کئی گھنٹے تک روس کے ساتھ جاری جنگ کے نئے فیز کے حوالے سے حکمت عملی پر بھی بات چیت کی۔

چنانچہ صدر بائیڈن کی اتوار کے روز کی گئی اس پیشگوئی کو یاد رکھنا بہت آسان تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے کیونکہ دونوں فریق اب اس مرحلے سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ چین کے امریکی فضائوں میں ایک بڑا غبارہ بھیجنے کے عمل کو احمقانہ قرار دیا گیا تھا اور یہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے جس نے کم ہوتی ہوئی کشیدگی کو مزید ایندھن فراہم کر دیا ہے۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کیا صدر بائیڈن کی رجائیت پسندی کا انحصار ان خاموش سگنلز پر ہے جو انہیں حالیہ ہفتوں کے دوران چینی حکومت کے ساتھ پس پردہ ملاقاتوں کے دوران ملے ہیں۔ صدر بائیڈن کے اپنے مشیر اس کشمکش پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو اس وقت چین کے اندر فریقین کے درمیان جاری ہے۔ ایک وہ فریق ہے جو امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات کی بحالی چاہتا ہے اور ایک بہت طاقتور گروپ جو صدر شی جن پنگ کا ہمنوا ہے اور جس کا سارا فوکس معاشی ترقی کے بجائے قومی سلامتی کے امور پر ہے۔ رواں ہفتے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چین کسی بھی ایسے خدشے یا عندیے پر بہت حساس ہے کہ مغرب چین کی بڑھتی ہوئی قوت اور اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

چنانچہ اگر صدر بائیڈن کا موقف درست ہے تو برف پگھلنے میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ سربراہ اجلاس کے حتمی اعلامیے میں مغربی اتحادیوں اور جاپان کی طرف سے اصولوں کے ایک نئے اور مشترکہ سَیٹ کاجو اعلا ن کیا گیا ہے اس میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ تمام ممالک کس طرح اپنی سپلائی چینز اور اہم ٹیکنالوجی کو چین سے محفوظ کریں گے۔ اس پر چین کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ چین نے اسے اپنی طاقت کو کمزور کرنے اور اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ بیجنگ میں جاپان کے سفیر کو طلب کرکے اس سے سخت احتجاج کیا گیا ہے اور چین نے امریکہ کی ایک چِپ میکر کمپنی مائیکرون ٹیکنالوجی کی مصنوعات پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے کہ یہ چین کے عوام کے لیے سخت سکیورٹی رسک ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاشی ردعمل لگتا ہے عالمی رہنما جس کی مزاحمت کرنے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔

صدر بائیڈن متعدد بار اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ چین کے ساتھ کسی نئی سرد جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس امر کی بھی نشان دہی کر چکے ہیں کہ مغرب اور چین کا ایک دوسرے پر معاشی انحصار اس قدر پیچیدہ نوعیت کا ہے کہ اب دونوں ممالک کی حرکیات اُس دور سے بالکل ہی مختلف ہو چکی ہیں جب وہ آج سے پچاس سال قبل پہلی مرتبہ ایک نو منتخب سینیٹر کی حیثیت سے خارجہ پالیسی کے خدوخال وضع کر رہے تھے۔

ہیروشیما میں ہونے والی گروپ سیون کی سربراہی کانفرنس میں وضع ہونے والی مشترکہ اپروچ میں جس طرح کی ہم آہنگی نظر آتی ہے اور اس کے بعد چین کی حکومت نے جس قدر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے کم از کم ایک میں قابل قدر پیش رفت دکھائی ہے حالانکہ انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کے اتحادیوں کے درمیان اس حوالے سے خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اجلاس کے اختتام کے بعد کئی تجزیہ کاروں نے خاص طور پر یہ بات نوٹ کی کہ بجائے اس کے کہ شرکا اپنے اختلافات کو طول دیتے، تمام بڑے صنعتی اور جمہوری ممالک کے رہنمائوں نے ایک طرح سے چین کے خلاف ایک ایسی مشترکہ اپروچ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جسے چین نے اپنے لیے ایک سنگین خطرے کے طور پر لیا۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں قائم لوئی انسٹیٹیوٹ ایک ریسرچ گروپ ہے اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل فلی لَو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’’یہاں ایک ایسا اشارہ ملتا ہے جسے دیکھ کر امریکہ کو خوشی اور اطمینان محسوس ہو گا وہ یہ کہ بیجنگ اس مشترکہ اعلامیے پر بہت ناخوش دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ 

میتھیو پوٹنگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں ان کے قومی سلامتی امور کے ڈپٹی ایڈوائزر رہ چکے ہیں اور چین کے حوالے سے ٹرمپ حکومت کی اپروچ کے معمار بھی تھے۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ حقیقت جس پر چین جی سیون ممالک کے مشترکہ اعلامیے پر اس قدر سیخ پا ہے اس امر کا عندیہ دیتی ہے کہ اتحادی ممالک صحیح سمت میں جا رہے ہیں‘‘۔ صدر جو بائیڈن اور گروپ سیون کے اجلاس میں شریک دیگر رکن ممالک جن میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل ہیں سب نے اپنے اصولوں کی روشنی میں پہلا مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ وہ سب کس طرح مشترکہ طور پر ہر طرح کی معاشی بلیک میلنگ کی مزاحمت کریں گے اور چین کو تائیوان کو دھمکیاں دینے یا اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چین کواس امر کی بھی مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چین کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی بھی نہیں چاہتے۔

اس مشترکہ اعلامیے کے ذریعے چین پر اہم نکات کے حوالے سے شدید دبائو ڈالا گیا ہے جس میں بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں فوجی قوت میں اضافہ اور سنکیانگ کے ایغور اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ جب امریکہ نے بالکل خاموشی سے اپنے یورپی اتحادیوںکے ساتھ انٹیلی جنس معلومات شیئر کرنا شروع کر دیں تو اس کے چار مہینے بعد اس امر کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ چین روس کو اسلحہ کی فراہمی پر غور کر رہا ہے تاکہ وہ یوکرین کے خلا ف ایک بھرپور جنگ شروع کر سکے۔ اس لیے ہیروشیما میں گروپ سیون کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والایہ مشترکہ اعلامیہ چین کے لیے ایک طرح سے وارننگ کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کے ضمن میں لامحدود تعاون کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement