ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چین‘ امریکہ تعلقات میں سرد مہری …(2)

تحریر: پیٹر بیکر

گروپ سیون میں شامل تمام جمہوری ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں اور چین کو اس بات کی یقین دہانی بھی کرانا چاہتے ہیں کہ ہم دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کا محاصرہ کرنے کے لیے سرد جنگ کی حکمت عملی اپنانے کی کوشش نہیں کر رہے، حالانکہ وہ ایسی اہم ٹیکنالوجیز کو چین کی دسترس سے باہر رکھنا چاہتے ہیں جن میں یورپ میں بنی ہوئی ایسی مشینری بھی شامل ہے جو دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔

ہیروشیما سربراہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہماری پالیسی اپروچز کو اس طرح ڈیزائن نہیں کیا گیا جس کا مقصد چین کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا ہو اور نہ ہم چین کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاو ٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کا پابند اور ترقی کی راہ پر گامزن چین عالمی مفاد میں ہے۔ مگر ہم اس امر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ معاشی ترقی کے لیے ایک تنوع کے ساتھ ساتھ ’ڈی رِسکِنگ‘ یا کم سے کم رسک بھی ضروری ہے‘‘۔

ڈِی رِسکنگ دراصل یورپی ممالک کی وضع کردہ ایک نئی اصطلاح ہے جس کا مفہوم ایک ایسی حکمت علمی ہے جس کے تحت چین کے ساتھ معاشی تعلقات بالکل ختم کیے بغیر اس کی سپلائی چینز پر انحصار کو کم سے کم کیا جائے۔ صدر بائیڈن کی ٹیم کے نزدیک اس اصطلاح سے مراد ایسی حکمت عملی ہے جس میں چین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا جائے۔ آج کل زیادہ تر یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے کہ چین کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے۔ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوین کے نزدیک اس سے مراد ’’ایک چھوٹے سے کمپائونڈ کے اردگرد ایک اونچا سا جنگلہ نصب کرنا ہے‘‘ تاکہ ایسی ٹیکنالوجیز کومحفوظ بنایا جا سکے جنہیں چین اپنی عسکری قوت کو تیزی سے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن جس کام کو امریکہ اور یورپی ممالک رسک یا خطرے میں کمی کہتے ہیں‘ چین مہذب الفاظ میں اسے اپنے محاصرے سے تعبیر کر سکتا ہے۔

اس اعلامیے پر چین نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس اختتام ہفتہ جاری ہونے والے بیان میں گروپ سیون پر ’’عالمی امن میں رکاوٹ‘‘ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اسے چین پر حملہ اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔ اسی روز چین نے مائیکرون پر الزام لگا دیا کہ وہ ایسے سنگین سائبر سکیورٹی مسائل پیدا کر رہا ہے جو چین کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور یہ اسی طرز کے الزامات ہیں جو امریکہ چینی موبائل ایپ ٹک ٹاک اور چینی موبائل کمپنی ہواوے کے خلاف لگاتا رہا ہے۔ ہیروشیما میں مشترکہ مصروفیت ہونے کے باوجود صدر بائیڈن نے پاپوا نیوگنی میں رکنے سمیت بحر الکاہل ریجن کے اپنے دورے کا دوسرا مرحلہ منسوخ کر دیا تاکہ وہ اندرونی اخراجات اور قرضے کے حوالے سے مذاکرات کے لیے جلد از جلد وطن واپس پہنچ سکیں مگر ان کے اس فیصلے سے چین کے ساتھ مسابقت کو شدید دھچکا لگا۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر بائیڈن خاموشی سے چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے تعلقات از سر نو استوار کر سکتے ہیں جیسا کہ گزشتہ موسم خزاں میں دونوں رہنمائوں کی بالمشافہ ملاقات کے بعد نظر آیا تھا۔ صدر بائیڈن نے اتوار کے روز جاسوس غبارے جیسے واقعے کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اور پھر یہ بیوقوف غبارہ آ گیا جو کہ دو فریٹ کاریں بھی لے کر جا رہا تھا اور جس میں جاسوسی میں استعمال ہونے والے آلات نصب تھے، یہ امریکہ کے اوپر سے اڑ رہا تھا اور اسے مار گرایا گیا تو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کا سارا سلسلہ ہی تبدیل ہو گیا۔ میرے خیال میں آپ بہت جلد دیکھنے والے ہیں کہ عنقریب یہ سلسلہ بھی رک جائے گا‘‘۔

اس حوالے سے اگر کوئی موڑ آ سکتا ہے تو یہ صرف ان مذاکرات کی وجہ سے ہی آ سکتا ہے جو اسی مہینے آسٹریا کے شہر ویانا میں جیک سلیوین اور چین کے خارجہ پالیسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار وینگ ژی کے درمیان ہوئے تھے۔ مذاکرات کے موقع پر وہاں موجود حکام کے مطابق مسٹر وینگ ژی نے پہلے سے طے شدہ منصوبے سے ہٹ کر گفتگو کی تھی ’’بات چیت کے اس سیشن میں شاید ہی کوئی گرم جوشی پائی جاتی ہو؛ تاہم ایک لحاظ سے یہ بات چیت اس سے کہیں زیادہ مفید رہی جتنی امریکی حکام کو توقع تھی۔ صورت حال اس سے کافی مختلف تھی جیسی کہ عام طور پر چینی حکام کے ساتھ گفتگو کے دوران ہوتی ہے‘‘۔

دونوں جانب شکوے شکایت کی فضا پائی جاتی تھی۔ بائیڈن کی ٹیم کو امید تھی کہ اس بات چیت سے صورت حال مزید واضح ہونے میں مدد ملے گی۔ خاص طور پر یوکرین اور تائیوان کے حوالے سے طویل مذاکرات ہوئے۔ مسٹر وینگ نے جب اس امر پر زور دیا کہ چین تائیوان کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا تو وہ درحقیقت امریکی حکام کے ساتھ ماحول کو قدرے خوشگوار بنانا چاہتے تھے کیونکہ گزشتہ موسم گرما میں امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ شاید چین تائیوان کے ساتھ اپنا تنازع تیز ی سے حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا۔ مسٹر وینگ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ چونکہ اگلے سال کے آغاز میں تائیوان میں الیکشن ہونے والے ہیں اس لیے اس موقع پر ہمیں کوئی سنگین اقدام کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ مسٹر سلیوین نے اس بات پر اصرار کیا کہ چین کا اپنا طرزِ عمل درجہ حرارت میں اضافہ کرنے اور کشیدگی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔

امریکی حکام کو توقع ہے کہ شاید چین کے ساتھ مذاکرا ت کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے اور ممکن ہے کہ وزیر خزانہ جینیٹ ییلن اور وزیر تجارت جینا رائے مونڈو کو چین کے دورے پر بھیج دیا جائے۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اس دورے کا دوبارہ شیڈول آ جائے جو جاسوس غبارے کا ایشو پیدا ہونے کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ کچھ اس طرح کے بھی قرائن نظر آ رہے ہیں کہ اس سال موسم خزاں میں صدر بائیڈن او رچین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک ملاقات ہو جائے۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری جاری رہے گی اور دوسری طرف روس اور چین کے مابین بھی تعلقات کی یہی روش جاری رہے گی جسے صدر بائیڈن کے ایک مشیر ’’متاثرین کا اتحاد‘‘ قرار دیتے ہیں؛ تاہم اس وقت امریکی حکام مطمئن ہیں کہ جہاں تک ان کے علم میں ہے‘ چین نے ابھی تک روس کو مہلک ہتھیار فراہم نہیں کیے، حالانکہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو اس وقت ان ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement