ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

وِنڈ پاور میں سرمایہ کاری کریں

تحریر: ماریہ ویرینکوفا

ایسا لگتا ہے کہ بڑے بڑے جِن ہوا کواپنے بازوئوں میں پکڑ کر لاتے ہیں اور بحیرہ اسود کے ساتھ ساتھ واقع میدانوں میں لگی ونڈ ملز کے ذریعے یوکرین کی لائٹس جلانے میں مدد کرتے ہیں۔ یوکرین جنگ کو پندرہ ماہ ہونے کو ہیں‘ روس نے یوکرین کے پاور پلانٹس، ہائیڈرو الیکٹرک ڈیمز اور سب سٹیشنز پر بے تحاشا میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں تاکہ یوکرین میں تاریکی پھیلا کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکے۔ جنوبی مائکولیف ریجن میں ٹیلگولسکا کا واحد ونڈ فارم ہے جسے ملک کے زیادہ تر گرڈز پر فوقیت حاصل ہے۔ ایک میزائل حملہ پورے پاور پلانٹ کو ملیا میٹ کر سکتا ہے؛ تاہم یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ سینکڑوں فٹ دور واقع ونڈ ملز پر حملہ کرنے کے لیے درجنوں میزائل درکار ہوں گے۔ ایک ونڈ فارم کو اس کی ٹرانسمشن لائن تباہ کرکے بیکار کیا جا سکتا ہے مگر انہیں پاور پلانٹس کے مقابلے میں مرمت کرنا کہیں آسان ہے۔ DTEK گروپ وہ کمپنی ہے جس نے مشرقی یورپ میں سب سے بڑے ونڈ فارم کے لیے ٹربائن بنائے ہیں اس کے چیف ایگزیکٹو میکسم ٹم چینکو کہتے ہیں کہ ’’یہ ہمارا روسیوں کو جواب ہے۔ یہ سب سے منافع بخش اور توانائی کا محفوظ ترین ذریعہ ہے‘‘۔ 

2014ء سے یوکرین میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو قابل تجدید انرجی کو فروغ دینے میں مدد گار ہیں اور ان کا ایک مقصد روسی توانائی کی درآمد پر انحصارکم کرنا اور دوسری وجہ اس کا منافع بخش ہونا ہے۔ مگر اس سمت میں ایک طویل سفر باقی ہے اور جنگ نے اس کے امکانات مزید کم کر دیے ہیں۔ 2020ء میں یوکرین کی توانائی کا بارہ فیصد قابل تجدید انرجی سے حاصل ہوتا تھا جو یورپی یونین کا محض نصف فیصد بنتا ہے۔ ٹیلگو لسکا پروجیکٹ کے لیے 85 ٹربائن چاہئیں‘ جن سے پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جو پانچ لاکھ اپارٹمنٹس کی ضرورت کے لیے کافی ہو گی اور یہ کسی ونڈ فارم کی زبردست پیداوار ہو گی مگر یہ جنگ سے پہلے کے یوکرین کی پیداواری استعداد کا محض ایک فیصد انرجی ہو گی۔

فروری 2022ء میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو ملک کے لیے بجلی کے نئے ذرائع ناگزیر ہو گئے تھے۔ روس نے یوکرین کے پاور پلانٹس بمباری کرکے تباہ کر دیے ہیں اور انہیں چلانے کے لیے قدرتی گیس کی سپلائی بھی منقطع کر ڈالی ہے۔ روسی فوجو ں نے ملک کی پاور سپلائی کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور ا س امر کو یقینی بنا دیا ہے کہ یوکرین کے زیر قبضہ کسی حصے تک بجلی نہ پہنچ سکے۔ 5700 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا زیپوری زینزیا کا واحد نیوکلیئر پاور پلانٹ بھی ان کے قبضے میں ہے جسے جنگ کے دوران متعدد بار نقصان پہنچ چکا ہے اور اب وہ گرڈ کو بجلی فراہم نہیں کر رہا ہے۔ یوکرین کے قابل تجدید انرجی کے نوے فیصد پلانٹس روس کے قبضے میں ہیں جو زیادہ تر ملک کے جنوبی علاقوں میں واقع ہیں۔ یوکرین نے جنگ کے بعد بحالی کے جو منصوبے یورپی یونین کو پیش کر رکھے ہیں ان میں زیادہ تر قابل تجدید انرجی کے منصوبے ہیں۔ یوکرین کو یورپی یونین سے تعاون کی پوری امید ہے۔ ہناز مزیوا یوکرینی حکومت کی انرجی ایجنسی کے سربراہ ہیں‘ جنہوں نے ٹیلگو لسکا ونڈ فارم کی تعمیر میں مدد کی تھی‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’جنگ نے ہماری رفتار بڑھا دی ہے‘‘۔

تاہم انرجی اور معیشت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین انرجی کی بڑی مقدار کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی آمد اور تعمیر نو کا کام شروع ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا اور اس کا زیادہ تر انحصار یوکرین کی میدانِ جنگ میں کامیابیوں پر ہو گا۔ دی سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز نے دسمبر میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ’’قابل تجدید انرجی خاص طور پر شمسی اور ونڈ انرجی کے حصول کا انحصار اس بات پر ہے کہ یوکرین اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لے۔ ان زیر قبضہ علاقوں میں جس سطح کی تباہی ہوئی ہے وہ بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے گی جس میں سڑکوں اور گرڈ نیٹ ورکس جیسا انفراسٹرکچر نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا۔ موجودہ تنصیبات بھی بری طرح تباہی سے دوچار ہو چکی ہیں‘‘۔

جنوبی یوکرین کے علاقوں میں ونڈ پاور کی بھرپور استعداد موجود ہے جس کی عکاسی ٹیلگو لسکا میں ایک نئے پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب سے بھی ہوتی ہے جب گرم اور خشک ہوا گندم کے کھیتوں میں سے چلتی ہے تو وہ ٹربائنوں کے ایک وسیع سلسلے کو حرکت میں لاتی ہے۔ ان ٹربائنوں کو ڈنمار ک کی ایک کمپنی ویسٹاس نے تعمیر کیا ہے۔ ان ٹربائنوں کا قطر پانچ سو فٹ تک ہے۔ ہر وِنڈ مِل کا وزن 800 ٹن ہے۔ پہلی ٹربائن فروری 2022ء میں بنائی گئی تھی اور یہ وہی مہینہ ہے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو DTEK نے اپنا تعمیراتی کام روک دیا تھا۔ مگر اگست میں کمپنی کے سائٹ منیجر ایوہنی موروز کو اس کے ڈائریکٹر کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی جس نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ انٹرنیشنل کنٹریکٹر ز کے بغیر اپنا کام شروع کر سکتے ہیں جو اپنے بھاری آلات کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ علاقہ خالی کر کے جا چکے تھے۔ مسٹر موروز کہتے ہیں کہ ’’میں نے جن لوگوں کے ساتھ کام شروع کیا تھا انہیں بلانا شروع کر دیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اور ان کے کنٹریکٹر اس وقت کہاں کام کر رہے ہیں؟ نیز کیا یوکرین میں ایسی کرینیں موجود ہیں جو ایک سو ٹن وزنی آلات اٹھا سکیں‘‘۔ انہیں جواب ملا کہ اس وقت صرف ایک ایسی کرین ہے اور اسے بھی مرمت کی ضرورت ہے مگر یہ کرین ہماری واحد امید تھی۔ بلڈرز نے اس واحد کرین کی مرمت کر لی اور کام شروع کر دیا گیا کرین کو ’’ایک چھوٹا ڈریگن‘‘ کا نام دیا گیا اور اس کے ساتھ تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا۔ بلڈرز نے فرنٹ لائن سے محض ساٹھ میل دور اپنا کام شروع کر دیا۔ وہ جب فضائی حملے کے سائرن سنتے تو اپنے بنکرز میں پناہ لے لیتے تھے۔ بحیر ہ اسود میں روسی جہازوں سے فائر ہونے والے میزائل چنگاڑتے ہوئے ان کے سروں پر سے گزرتے مگر وہ اپنے ٹارگٹ کو نشانہ نہ بنا سکے۔ کروز میزائل تو ٹربائنوں سے بھی نیچے گزرتے تاکہ وہ یوکرین کے ایئر ڈیفنس سسٹم کے ریڈارز کی نظروں میں آنے سے بچ جائیں۔

مائکولیف کے گورنر وٹالی کم کہتے ہیں کہ ٹیلگو لسکا پروجیکٹ میں لگنے والی نئی ونڈ ملز انرجی سکیورٹی اور گرین انرجی کی طرف ایک چھوٹا سا قدم ہے مگر یہ یوکرین کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس ونڈ پاور پلانٹ کی تعمیر اس بات کا سگنل ہے کہ جنگ کے دنوں میں بھی پروجیکٹس کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ایسے پروجیکٹس کو ہمارے ملک کی آزادی کی علامت کے طور پر برقرار رہنا چاہئے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement