ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنوبی ایشیا میں بالادستی کا بھارتی خواب …(1)

تحریر: مجیب مشال

ایک عشرے سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جب سے چین نے ان ترقی پذیر ممالک کو اپنی طرف مائل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو اس وقت مغربی ممالک کے طرزِ عمل اور پالیسیوں سے خاصے مایوس ہو چکے ہیں۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں سے اپنی کامیاب اور نتیجہ خیز معاشی پالیسیوں کی مدد سے جس طرح اپنے کروڑوں شہریوں کو غربت کی چکی سے باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ یہ بات ان ممالک کے لیے ترغیب کا باعث ہے۔ چونکہ چین کی اس حکمت عملی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تشکیل کردہ عالمی نظام کو چیلنج کیا تھا خاص طور پر اس لیے کیونکہ اس میں عالمی سطح پر چین کا سارا فوکس دوطرفہ تجارت کے فروغ، بھاری قرضوں اور ان ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی تعمیر کے ذریعے ترقی پر مرکوز تھا؛ چنانچہ اس پالیسی سے گزشتہ چند عشروں کے دوران چین سے اربوں ڈالرز ان غریب ممالک کی طرف منتقل ہوئے جن کی انہیں اشد ضرورت بھی تھی۔

مگر اب چین کو عالمی میدان میں سبقت لینے کے اس مقابلے میں ایک اور ایشیائی ملک سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر اس ریجن میں جسے گلوبل سائوتھ کہا جاتا ہے۔ ایک نئے اعتماد سے سرشار بھارت خود کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک مختلف طرح کے لیڈر کے طور پر پیش کر رہا ہے یعنی ایک ایسے ملک کے طور پر جو جسامت میں بڑا اور عالمی سطح پر ایک اہمیت کا حامل ہے۔ جو آج کی منقسم دنیا میں جغرافیائی طور پر زیادہ بہتر محل وقوع پر واقع ہے اور مغربی ممالک کو اپنے انداز سے سیاسی، معاشی اور عسکری پالیسیاں اور طور طریقے بدلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

اس کا اولین ثبوت یہ ہے کہ پچھلے ہفتے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھارت مقتدر عالمی رہنمائوں میں ایک مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی مدد اور تعاون سے بھارت امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی اور مغربی ممالک کو اس بات پر قائل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے کہ وہ یوکرین کے خلاف روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے مسلط کردہ جارحیت پر اپنے بیانات میں نرمی پیدا کریں تاکہ یہ فورم عالمی قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ اور کلائمیٹ فنانسنگ سمیت ترقی پذیر ممالک کے دیگر پیچیدہ اور لاینحل مسائل پر بہتر انداز میں توجہ دے سکے۔ بھارت نے گلوبل سائوتھ کی مہم جس پُرزور انداز میں چلائی ہے اور خود کو اس کا اکلوتا چیمپئن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس ضمن میں وہ ٹھوس نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ اس نے افریقن یونین کو گروپ 20 میںشامل کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی یورپی یونین کے ہم پلہ ایک ادارہ ہے۔

کشور محبوبانی‘ جو سنگاپور میں بھارت کے سابق سفیر رہنے کے علاوہ ’’Has China Won‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں‘ بھارت کے اس نئے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’عالمی نظام میں ایک طرح کی ساختیاتی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ جہاں مغرب کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے اور مغربی دنیا سے باہر گلوبل سائوتھ کے وزن اور قوت میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’اس وقت مغرب اور باقی دنیا میں صرف ایک ملک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے اور وہ ہے بھارت‘‘۔ ایسے وقت میں جب لگتا ہے کہ ہر عالمی فورم پر کسی بھی عالمی مسئلے پر بات چیت کے موقع پر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے لگتی ہے‘ بھارت کے اس موقف میں خاصا وزن اور اپیل نظر آتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں امریکہ اور نہ ہی چین کو زیادہ محبت بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ کو اس لیے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کا سارا فوکس معاشی امداد اور تعاون کے بجائے اپنی ملٹری قوت اور برتری ثابت کرنے پر ہوتا ہے۔ چین کا سگنیچر پروجیکٹ ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ ہے مگر اس وقت اسے بھی عالمی سطح پر شدید ردعمل کا سامنا ہے کیونکہ چین قرضوں پر ازسر نو مذاکرات کی مزاحمت کر رہا ہے جن سے بہت سے ممالک کے دیوالیہ ہونے کاخدشہ ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت جس چیز کی پیشکش کر رہا ہے وہ نہ تو سیاسی بالادستی کا پیش خیمہ ہے اور نہ ہی اس کا دولت یا اسلحے کے ساتھ کوئی تعلق ہے بلکہ سارا زور مؤثر انداز میں ترقی پذیر ممالک کو سپورٹ کرنے پر ہے۔ بھارت ہمیشہ ان مسائل کی بات کرتا ہے جن سے ترقی پذیر ممالک کو مشرکہ طور پر واسطہ پڑتا ہے۔ نیز بھارت ہمیشہ اس عزم اور وعدے کا اظہار کرتا ہے کہ ان تمام اداروں میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی جو عالمی پالیسی کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اسے پہلے سیاسی معاشی اور عسکری طور پر ایک طویل سفر طے کرنا ہے تب جا کر وہ ایک عالمی قوت کہلوانے کا حقدار ہو سکتا ہے۔ بھارت کے اپنے امید افزا تخمینوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی وہ ابھی کئی عشروں تک ایک ترقی یافتہ ملک کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہو گا۔ عالمی منظر نامے پر اس کا سفارتی مقام اور رتبہ ان ممالک سے کمتر سمجھا جائے گا جو جغرافیائی طور پر حجم میں اس سے کہیں چھوٹے سمجھے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی موجودہ حکومت اپنے ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر جس سختی اور جوش و خروش کے ساتھ عمل کر رہی ہے اس نے عالمی سطح پر بھارت کے حوالے سے مسلسل ایک غیر یقینی کی فضا کو فروغ دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ بھارت کی اقتصادی صورتحال بڑی تیز ی سے ترقی کی طرف رواں ہے اور دوسری طرف مغربی ممالک کو اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک ایسے اتحادی کی ضرورت ہے جسے وہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کر سکیں اور ان حالات میں نئی دہلی خود کو ایک اہم اور پُرکشش مقام پر محسوس کرتا ہے مگر بھارت کے اندرونی مسائل اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب چین کے صدر شی جن پنگ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھارت میں منعقد ہونے والی گروپ 20 کی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے تو کئی تجزیہ کاروں نے اس فیصلے کو اس انداز میں دیکھا کہ شاید چین کو اب عالمی نظام کو تشکیل دینے میںکوئی دلچسپی نہیں رہی بلکہ اب وہ اسے یکسر تبدیل کر کے کوئی اور نظام لانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ چین کے جی 20 کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے بھارت کو میدان بالکل کھلا مل گیا۔

نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی 20 کے سربراہی اجلاس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے خود کو نہ صرف ایک دوست بلکہ ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جو عالمی گرو ہ بندی میں ایک پل تعمیر کرنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ انہوں نے اس ایونٹ میں جب امریکی صدر جو بائیڈن کا خیر مقدم کیا تو دیر تک ان کا ہاتھ تھامے رکھا۔ (جاری) 

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں