ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت اور کینیڈا میں سفارتی کشیدگی …(1)

تحریر: مجیب مشال

یہ الزام ایک بم شیل سے کم نہیں تھا کہ بھارت اس کینیڈین سکھ کے قتل میں ملوث ہے جسے رواں برس جون کے مہینے میں کینیڈا کی سرزمین پر قتل کیا گیا تھا۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کے روز قتل کا یہ الزام عائد کیا تھا اور اس کے بعد ایک بڑے پیمانے پر سفارتی جنگ کا آغاز ہو گیا۔کینیڈا نے اپنے تمام اتحادیوں سے بھارت کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد اور تعاون مانگ لیا جس کے جواب میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا سے گہری تشویش پر مبنی سخت بیانات جاری ہو گئے۔ جونہی بھارت تک یہ خبر پہنچی تو اس نے جوابی ردعمل میں کینیڈا کے ایک اعلیٰ سفارتکار کو بھارت چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا اور بھارتی حکام اس تیاری میں لگ گئے کہ کینیڈا کو بھارت کی طرف سے اظہارِ ناراضی کا سخت پیغام پہنچا دیا جائے۔

لیکن سفارتی تعلقات میں اس قدر گراوٹ کے پس پردہ جو اوامر کارفرما ہیں تجزیہ کار سفارتی کشید گی کے ان سالوں میں انہیں کمزور اور نچلی ترین سطح کے تعلقات سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بھارت اس سار ے معاملے کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ مغربی ممالک‘ جن میں کینیڈا نمایاں ترین ملک ہے‘ ان شدت پسند سکھ گروپوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جن میں وہ گروپ بھی شامل ہے جس کے قتل ہونے والے سربراہ ایک کینیڈین شہری تھے۔ اس طرح مغربی ممالک اس علیحدگی پسند تحریک کو سپورٹ کر رہے ہیں جو بھارت کی سالمیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ بھارتی حکام نے کینیڈا، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں اپنے ہم منصب حکام پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے ہاں مقیم بھارتی نژاد تارکین وطن خالصتان جیسی تحریک کے لیے کام کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند سکھ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیے پنجاب کے ریجن میں ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے مگر یہ تمام حکومتیں کھلی بے عملی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ تارکین وطن بھارت کے سفارتی مشنوں پر حملے کر رہے ہیں اور وہاں موجود سفارتی عملے کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

تاہم اگر اس بات کی تصدیق ہو بھی جاتی ہے کہ سکھ لیڈر کے قتل میں بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار ملوث ہیں یا ان کا اس سارے معاملے میںکوئی کردار ہے تو اس سے بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے سخت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی را یعنی ’’ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ‘‘ کے حوالے سے پہلے سے ہی یہ تاثر اور شک موجود ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک میں ٹارگٹڈ قتلِ عام میں ملوث ہے۔ تجزیہ کاروں اور سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اس نوعیت کا پہلا معروف کیس ہو گا جس کے لیے کسی مغربی ملک کا انتخاب کیا گیا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے منگل کے روز دارالحکومت اوٹاوا میں رپورٹرز سے باتیںکرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’’بھارتی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرے۔ یہ انتہائی سنجیدہ اور سنگین معاملہ ہے اور بین الااقوامی قانون اور نظام کے مطابق اس کے دوررس نتائج برآمد ہوںگے‘‘۔

ان الزامات پر بھارتی حکومت نے جس طرح کے ردِعمل کا اظہار کیا ہے اس سے جزوی طور پر اس کی داخلی سیاست کی بو آتی ہے۔ بھارت کی حکومت ایک عرصے سے یہ دعویٰ کرتی آ رہی ہے کہ خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کو پنجاب میں کوئی زیادہ سپورٹ نہیں حاصل؛ تاہم بھارتی حکومت کے حکام نے 2020-21ء میں کسانوںکی تحریک کو‘ جس میں سکھوں کی اکثریت تھی‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دس برس پر محیط دور حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر پیش کیا تھا اور اس تحریک کو علیحدگی پسندی کے اسی برش کے ساتھ پینٹ کیا تھا جس کے ساتھ وہ غیر ممالک میں شدت پسند سکھ عنا صر کی منظرکشی کرتی ہے۔ اس بات نے بہت سے تجزیہ کاروں کی سوچ میں اس بات کا یقین پیدا کر دیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہی خالصتان کی علیحدگی کی تحریک کو ملک کے لیے ایک بڑ ے خطرے کے طور پر پروان چڑھا رہے ہوں اور اسے اپنی الیکشن مہم کی ایک آزمودہ اور نتیجہ خیز سیاسی اور انتخابی حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہے ہوں اور اس طرح خود کو بھارت‘ خاص طور پر ہندو اکثریتی ملک کے واحد محافظ کے طور پر پیش کر رہے ہوں۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور مسیحیوں کو اس کی ایک بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ یہاں حکومت میں انتہائی اعلیٰ سطح پر جو ہندو قوم پرستی کا عنصر موجود ہے اس کی وجہ سے ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد اور غارت گری ہو رہی ہے۔ مگر کینیڈ ا میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے تازہ ترین واقعے نے بھارت میں بسنے والے سکھوں کو بھی نشانہ بنا لیا ہے۔

حالیہ سفارتی تنازع پیر کے روز اس وقت شروع ہوا جب کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین پارلیمنٹ میں اپنے ایک ہنگامی خطاب میں اس امر کی نشاندہی کی کہ کینیڈین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ٹھوس اور قابل اعتماد ثبوت موجود ہیں کہ برٹش کولمبیا سے تعلق رکھنے والے ایک سکھ علیحدگی پسند لیڈر ہردیپ سنگھ نجر پر ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں‘ جس میں مسٹر نجر ہلاک ہو گئے تھے‘ بھارتی ایجنٹس ملوث ہیں۔ بھارت کے بعد سب سے زیادہ سکھ کمیونٹی کینیڈا میں آباد ہے اور کینیڈا کی حکومت نے یہ پُرزور اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سالمیت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ دوسری طرف بھارتی حکومت نے ان الزاما ت کو پُرزور انداز میں مسترد کیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں مسٹر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے بھارتی حکومت کے کسی قسم کے تعلق کو ثابت کرنے کی کوشش کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے اور کینیڈا کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دے رہی ہے جو بھارت کی خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے لیے مسلسل خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔

ایک سابق بھارتی سفیر مسٹر کے سی سنگھ نے کہا ہے کہ کینیڈا‘ جو گروپ سیون کا ایک اہم رکن ملک ہے‘ کی طرف سے اتنے سنجیدہ قسم کے الزامات بھارت کے مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے ابھی تک کوئی ایسا ثبوت فراہم نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اس حملے میں بھارت کی حکومت یا اس کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ کے سی سنگھ کا مزید یہ کہنا تھا کہ یہ بات بالکل واضح اور اظہر من الشمس ہے کہ اس سکھ رہنما کے قتل کے بعد اس مسئلے میں شدت آتی رہی ہے کیونکہ سکھ گروپس انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے بھارتی سفارت کاروں کے خلاف کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے ہیں جس سے کینیڈین سیاستدانوں پر دبائو خاصا بڑھ گیا ہے۔ (جاری) 

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں