ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت اور کینیڈا میں سفارتی کشیدگی…(2)

تحریر: مجیب مشال

بھارت میں اس بات پر سخت ناراضی پائی جاتی ہے کہ سکھ‘ جو بھارتی پنجاب کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں‘ انہیں کینیڈا کی حکومت اتنی ڈھیل کیوں دے رہی ہے۔ کینیڈا کو اس بات کا غصہ ہے کہ اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اس کے شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ مسٹر کے سی سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان حائل خلیج میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دونوں ممالک کی داخلی سیاست اب ضد کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے‘‘۔ اس کشیدگی کے اشارے تو اسی وقت ملنا شروع ہو گئے تھے جب کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پچھلے ہفتے جی 20 کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہیں بھارتی حکومت کی طرف سے کافی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پہلے تو ان کی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ انتہائی ناخوشگوار ماحول میں ملاقات ہو ئی پھر جسٹن ٹروڈو اس عشائیے سے بھی غائب نظر آئے جس میں امریکی صدر جو بائیڈن سمیت جی 20 کے باقی تمام عالمی رہنما موجود تھے۔ جسٹن ٹروڈو کے ہوائی جہاز میں فنی خرابی سونے پر سہاگا ثابت ہوئی جس کی وجہ سے انہیں دو دن مزید نئی دہلی میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں رکنا پڑا حالانکہ بھارتی حکومت نے انہیں متعدد بار متبادل ہوائی جہاز فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ پیر کے روز جسٹن ٹروڈو نئی دہلی ہی میں تھے جب انہوں نے کہا کہ میں نے کینیڈین ایجنسیوں کی جو رپورٹ نریندر مودی کو پیش کی ہے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ جمعرات کو بھارتی حکومت نے بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جسٹن ٹروڈو کے تمام دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔

خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کے ڈانڈے 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر برطانوی دور حکومت کے آخری ایام سے جا ملتے ہیں اور اس کا خونچکاںعروج 1980ء کی دہائی میں اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب ایک شدت پسند عسکری گروپ نے 1984ء میں اپنی خالصتانی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے امرتسر میں واقع سکھوںکے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی نے گولڈن ٹیمپل کو کلیئر کرانے کے لیے کمانڈوز بھیج دیے اور اس تصادم کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ دو سکھ باڈی گارڈز‘ جنہیں اندرا گاندھی کے اس فیصلے پر شدید غصہ تھا‘ نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو اس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا جب اپنی رہائشگاہ سے دفتر کی طر ف جا رہی تھیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے ردعمل میں ہزاروں بے قصور سکھوں کو قتل عام کا سامنا کرنا پڑا جس کے پس پردہ حکمران جماعت کانگرس کا ہاتھ تھا۔ 1985ء میںخالصتان تحریک سے منسلک علیحدگی پسندوں پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوںنے ہی اُس طیارے میں بم نصب کیا تھا جو ٹورنٹو سے لندن کی طرف محو پرواز تھا اور اس سانحے میں تین سو سے زائد مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اگرچہ اس علیحدگی پسند تحریک کو پنجاب میںجزو ی حمایت حاصل ہے؛ تاہم اس تحریک کے حوالے سے مغربی ممالک میں مقیم سکھوںمیں کوئی نہ کوئی سیاسی سرگرمی چلتی رہتی ہے جس کی یادیں ایک ریٹائرڈ سفیر مسٹر کے سی سنگھ کے خیال میں بیرونِ ملک مقیم انقلابی سوچ رکھنے والے سکھ تارکین وطن کے ذہنوں میں آج بھی کسی حد تک تازہ ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے اعلیٰ حکام کا یہ کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیںکہ ان ممالک میں خالصتان کے لیے متحرک علیحدگی پسند گروپوں کے خلاف اس لیے کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہیں ہو رہی کیونکہ انہیں مقامی سیاسی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا اور آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں سکھ تارکین وطن نے طاقتور اور مؤثر لابیز بنا ئی ہوئی ہیں۔

پینتالیس سالہ سکھ علیحدگی پسند لیڈر ہردیپ سنگھ نجر دہشت گردی کے الزامات میں بھارت کو مطلوب تھا۔ 2018ء میں بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی نے ایک شکایت فائل کی تھی جس میں اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ ’’اس نے بھارت پر ایک بڑا دہشت گرد حملہ کرنے کی نیت سے سازش اور منصوبہ بندی کی ہے‘‘۔ بھارت کی حکومت نے کینیڈین حکومت سے یہ درخواست بھی کر رکھی تھی کہ ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا سے ملک بدر کیا جائے تاکہ اس کے خلاف ضروری عدالتی کارروائی کی جا سکے۔ ایجنسی کے مطابق ہردیپ سنگھ نجر کا سارا فوکس اس بات پر تھا کہ دائیں بازو کی قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے اجتما عات اور کام کرنے کا طریقہ کار کیسا ہوتا ہے۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر وزیراعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو نظریاتی کارکن فراہم کرتی ہے۔پنجاب میں پارٹی کے ایک سینئر لیڈر ونیت جوشی کہتے ہیں کہ کینیڈا کی سیاسی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی اور کسی دوسری قوم کی سالمیت پر حملہ کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ونیت جوشی کا مزید کہنا تھا کہ ’’انہیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وہ والا بھارت نہیں ہے۔ یہ نریندر مودی کی سیاسی قیادت میں پہلے سے کہیں طاقتور بھارت ہے‘‘۔

بھارتی حکام کہتے ہیں کہ کینیڈین حکومت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کی ذمہ دار وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی ایڈمنسٹریشن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے خالصتان کے نام پر کی جانے والی شدت پسند کارروائیوں کو بہتر انداز میں سمجھ لیا ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ دونوں حکومتیں اس ضمن میں ضروری کارروائی کریں گی جبکہ کینیڈا کے حکام اکثر خالصتانی گروپوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان گروپوں نے پنجاب میں ایک آزاد ملک کے قیام کے لیے کینیڈا میں ریفرنڈم بھی منعقد کیے ہیں۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے قومی سلامتی کے مشیر جوڈی تھامس نے بھارت کو بھی چین اور روس کے ساتھ اس فہرست میں شامل کر لیا ہے جو کینیڈا کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے) 

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں