ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دنیا کی آبادی میں سنگین اضافہ …(1)

تحریر: ڈین سپیئرز

گزشتہ دو صدیوں میں انسانی آبادی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔ لیکن آج ہم سب لوگ جو زندہ ہیں‘ پروان چڑھ رہے ہیں جبکہ دنیا بھی بڑ ی تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ انسانی تاریخ میںایک بڑا انحراف ہے۔ جو بچے آج پیدا ہو رہے ہیں‘ امید ہے کہ وہ انسانی آبادی میں اضافے کا انجام دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔ جو بچہ اس سال پیدا ہو گا وہ 2080ء کی دہائی میں ساٹھ سال کا ہو جائے گا جبکہ اقوام متحدہ کے ڈیمو گرافرز یہ توقع کرتے ہیں کہ اس وقت تک انسانی آبادی کا حجم اپنے نقطۂ عروج پر ہو گا۔ وٹجینسٹین سنٹر فار ڈیموگرافی اینڈ گلوبل ہیومین کیپٹل‘ جو ویانا میںقائم ہے‘ کے خیال میں یہ نقطۂ عروج 2070ء کی دہائی میں دیکھا جا سکے گا۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ اِویلیوایشن کے خیال میں 2060ء کے عشرے میں انسانی آبادی اپنے عروج پر ہو گی۔ ان تمام پیشگوئیوں میں ایک بات پر مکمل اتفاق رائے نظر آتا ہے کہ ہم جلد نقطۂ عروج پر پہنچنے والے ہیں اور اس کے بعد آبادی سکڑنا شروع ہو جائے گی۔ انسانی آبادی میں اپنی اوسط بلندی پر پہنچ کربھی استحکام نہیں آئے گا۔ اس کے بعد آبادی میں ایک غیر معمولی کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔  چونکہ زیادہ تر ڈیموگرافرز اس مسئلے کوصرف 2100ء تک ہی دیکھتے ہیں اس لیے اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیںہے کہ اس کے بعد انسانی آبادی کتنی تیزی سے کمی آئے گی۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران عالمی آبادی چار گنا ہو چکی ہے یعنی دو ارب سے آٹھ ارب ہو گئی ہے۔ جب تک زندگی اسی رفتار سے چلتی رہتی ہے جس میں لوگ چھوٹے خاندان کو ترجیح دیتے رہیںگے جیسا کہ اس وقت دنیا کے بڑے حصوں میںہو رہا ہے اور یہ بائیسویں اور تئیسویں صدی میں بھی جاری رہتا ہے تو آبادی میںکمی بھی اسی رفتار سے ہو گی جس رفتار سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔

اب لوگ زیادہ تر ان ممالک میں رہ رہے ہیں جہاں ہر بالغ جوڑے کے ہاں دو یا اس سے کم بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر امریکہ میں رہنے والے تمام لوگ اپنے بچے پیدا کرنے والے دور میں زندہ رہتے ہیں اور ان کے ہاں اوسط تعداد میں بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں تو ہر عورت کے ہاں 1.66 بچے پیدا ہوں گے۔ یورپ میں یہ شرح 1.50 فی عورت، مشرقی ایشیا میں 1.20 اور لاطینی امریکہ میں 1.90 بچے فی عورت کی شرح سے پیدا ہوںگے۔ اگر ہر بالغ جوڑے کے ہاں دو بچوں سے کم بچے پیدا ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آبادی میںکمی واقع ہو گی اور آنے والی ہر اگلی نسل پہلی نسل کے مقابلے میںچھوٹی ہو گی۔ اگر شرحِ افزائش وہی رہتی ہے جو آج کل امریکہ میں پائی جاتی ہے تو دنیا کی آبادی دس ارب پر پہنچ کر اگلی تین صدیوں میں یعنی دس نسلوںکے بعد دوبارہ آٹھ ارب تک کم ہو جائے گی۔ اگر خاندان کا سائز اتنا ہی رہتا ہے تو انسانی آبادی میںکمی بھی جاری رہے گی۔ ایسی صورت میں کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ گزشتہ دو صدیوںکے دوران آبادی میں اضافے کی شرح وہی رہی جس شرح سے انسانی معیارِ زندگی اور معیارِ صحت، عمر کی طوالت، صحت مند بچوں، بہتر تعلیم، کم مدتی ورک ویک کے علاوہ بہت سے شعبوںمیں بہتری آئی تھی۔

ہمارا ترقی کا دور حال ہی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اینٹی بائیوٹکس دریافت ہوئے۔ بجلی کا بلب ایجاد ہوا، دادی اماںکے ساتھ وِڈیو کالز کا آغاز ہوا اور گِنی کیڑے کی بیماری کے خاتمے کا امکان پیدا ہو گیا۔ اس مختصر سی مدت میں انسانوں میں روز افزوں اضافہ ہوا۔ جو ماہرین معاشیات نمو اور ترقی کو سٹڈی کرتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ یہ محض حسن اتفاق ہے۔ جدت اور دریافتیں انسانوںکی مرہون منت ہیں۔ ایسی دنیا‘ جس میں کم انسان رہتے ہوں‘ بہتر زندگیوںکے لیے ایک خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جب کبھی کم شرح پیدائش کی طرف انسانوںکی توجہ مبذول ہوتی ہے تو اس بات کا چانس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوںکو عالمی مسابقت، امیگریشن یا حکومت کے مالیاتی چیلنجز کے بارے میں تشویش پیدا ہونا شروع ہو جائے۔

انسانی آبادی میں مسلسل کمی کا سامنا کرنے والی دنیا ایک ایسی بڑی تبدیلی ہے جس کا ہم سب انسانوں کو سامنا ہے۔ یہ جیو پولیٹکل فوائد یا حکومتی بجٹ سے بھی بڑی تبدیلی ہے۔ کم شرح افزائش کا مطلب یہ ہو گا کہ اگلی چند صدیوںکے دوران کئی ارب افراد نہیں پیدا ہوں گے۔ بہت سی ایسی زندگیاں‘ جو اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کے لیے بہت زبردست اور مفید ہو سکتی تھیں‘ نہیں پیدا ہوں گی۔ شاید اس نقصان پر آپ کو زیادہ تشویش نہیں ہوتی۔ آبادی میں کمی کو ماحولیات کے لیے خوش آئند اور ایک نعمت سمجھا جائے گا۔ لیکن ہمیں جس طرح کے سنگین مسائل کا سامنا ہے آبادی میںکمی کی یہ رفتار بہت سست ہے۔ ماحولیات، زمین کے استعمال، حیاتیاتی تنوع، آبادی اور دیگر موسمیاتی چیلنجز کے حوالے سے کسی فوری ایکشن کی ضرورت کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر 2080ء تک انسانی آبادی دس ارب کی تعداد کو چھو لیتی ہے اور پھر اس میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے تو 2100ء تک یہ موجودہ آٹھ ارب آباد ی سے پھر بھی زیادہ ہو گی۔ آبادی میں تیز رفتار کمی کو انسانی نسلوںکے حساب سے ناپا جائے گا؛ تاہم کرۂ ارض کو بچانے کی رفتار بہت سست ہو گی۔

ہماری معیشتوں کو کاربن کے استعمال سے پاک کرنا،ہمارے فوڈ سسٹم اور زمین کے استعمال میںاصلاحات کا عمل متعارف کرانے کے لیے موجودہ اور اس سے اگلی دہائی میں تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ اس کام کا آغاز اگلی صدی میں کیا جائے؛ تاہم اس بات کی بھی ضرورت نہیںہے کہ شرح پیدائش کی سروس کے لیے ہماری معیشتوں اور سوسائٹیز کی فوری طور پر تشکیل نو کی جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فی الحال اس موضوع پر گفتگو شروع کی جائے تاکہ کم شر ح پیدائش کے حوالے سے ہمارے ردعمل پر فیصلہ کرتے وقت تمام انسانوں کے بہترین آئیڈیاز کو اس فیصلہ سازی میں شامل کیا جا سکے۔ اگر ہم نے ان چیلنجز کا سامنا کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کی تو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے چوائس کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ کسی ایسے سماج اور معیشت میں جس میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد نوجوانوں سے بڑھ جائے‘ ایسے سماج میں ایسی پالیسیوں کا نفاذ‘ جو بچوںکو سپورٹ کرتی ہیں‘ مزید سخت ہو جاتا ہے۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں