ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارت: حلال سند یافتہ اشیا پر پابندی

تحریر: امجد خان

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں 18نومبر کو حلال سرٹیفکیٹ (سند) والی اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی 17نومبر بروز جمعہ کو بھارت میں حلال فوڈ کی سند دینے والے اداروں کے خلاف لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس تھانے میں ایک ایف آئی آر کے بعد عمل میں آئی ہے۔ریاستی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق حلال سرٹیفکیٹ والی مصنوعات کی پیداوار‘ انہیں ذخیرہ‘ تقسیم اور فروخت کرنے پر پابندی لگ چکی ہے اور اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنی یا افراد پر 3 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ ریاستی حکومت کے اس اقدام کو جہاں کچھ لوگ سراہ رہے ہیں‘ وہیں بہت سے لوگ اسے حکومت کا دوہرا معیار اور مسلم مخالف پالیسی قرار دے رہے ہیں۔

اُترپردیش ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے اور وہاں سے مرکزی پارلیمنٹ کے لیے 80اراکین کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن اس ریاست میں‘ ماضی میں جس کی نمائندگی پنڈت جواہر لال نہرو اور لال بہادر شاستری جیسی شخصیات کیا کرتی تھیں‘ اس وقت وہاں یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگ حکومت چلا رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت‘ جس میں ایسا لگتا ہے کہ ترقیاتی ایجنڈے کو تو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ بلڈوزر‘ تعصب و جانبداری‘ فرقہ پرستی‘ اشتعال انگیز بیانات و تقاریر اور مظلوم اقلیتوں پر پولیس مظالم کو اولین ترجیحات میں شامل رکھا گیا ہے۔ ہر خاص و عام یہ دیکھ چکا ہے کہ یوگی حکومت میں کس طرح اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے گھروں پر مختلف بہانوں سے بلڈوزر چلائے گئے۔ اس کی دیکھا دیکھی مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت اور ہریانہ میں منوہر لال کتھرکی حکومت نے بھی مسلمانوں کے گھروں اور ان کی بستیوں کو بلڈوزر چلاتے ہوئے زمین دوز کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستی حقیقت میں ایک نفسیاتی بیماری ہے اور بھارت کے سیاسی قائدین اس سے شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ بھارت میں وہ چاہے کتنے بھی اعلیٰ عہدے پر ہی کیوں نہ فائزہوں‘ ان میں غیر ہندو مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف بدترین انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ ان کے خلاف انسانیت کو شرما دینے والی کارروائیوں کا آغاز کر دیتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ مذہب کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ انسانوں کے آخری سفر کو بھی برداشت نہیں کرتے اور انہیں شمشان اور قبرستان کے نام پربھی بانٹنے لگتے ہیں۔ لباس کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ کھانے پینے کی عادات و اطوار کو بنیاد بناکر لوگوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں اور پھر نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کا بھی بے جا استعمال شروع کردیا جاتا ہے۔ ہم بات کر رہے تھے کہ اُترپردیش کی۔ یہ وہ ریاست ہے جہاں کی سرزمین سے ہزاروں کی تعداد میں مجاہدینِ آزادی اٹھے اور انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا۔ آزادی کے ان مجاہدین میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ انہوں نے انگریزوں پر اپنی حب الوطنی کی ایسی دھاک بٹھائی کہ وہ دہشت و وحشت میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ انگریز ہمیشہ سے اس بات کے خواہاں رہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالا جائے۔ انہیں اتحاد و اتفاق سے دور رکھا جائے‘ تب ہی ہم اس ملک پر بے فکری کے ساتھ حکمرانی کر سکتے ہیں۔ بقول نَوجیت سنگھ سدھو‘ آج کالے انگریز (فرقہ پرست جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین) وہی کام کر رہے ہیں جو 1947ء سے قبل گورے انگریزوں نے کیا تھا۔ آج یہ طاقتیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو اسی طرح تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس طرح کل انگریز گنگا جمنی تہذیب کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ اُتر پردیش میں عام مسلمانوں‘ مسلم سماجی کارکنوں اور مسلم سیاسی قائدین کو مختلف بہانوں سے ستایا گیا اور اب بھی ستایا جارہا ہے۔ یوگی حکومت کی فرقہ پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چن چن کر مسلم ناموں کے شہروں یہاں تک کہ ریلوے و بس سٹیشنوں اور مسافر خانوں یہاں تک کہ کھیل کے میدانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ اب وہ علی گڑھ جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کرکے ہری گڑھ رکھنے کا منصوبہ بنا چکی ہے اور اس ضمن میں یوپی کی بلدیہ نے یوگی حکومت کی یہ تجویز منظور کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو واپس روانہ کر دی ہے جو اب مرکزی حکومت کو بھیجی جائے گی۔ جہاں تک علی گڑھ کا سوال ہے تو یہ شہر 1194ء سے بہت زیادہ منظر عام پر آیا۔ قطب الدین ایبک سے لے کر غیاث الدین بلبن تک سے یہ علاقہ جڑا رہا اور خلجی اور تغلق حکمرانوں کی حکمرانی میں علی گڑھ کو کافی اہمیت حاصل رہی۔ علی گڑھ ہمیشہ علم و ہنر کا مرکز رہا ہے جہاں عالمِ اسلام کی مشہور و معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ بے شمار تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ بہرحال یوگی حکومت وقفہ وقفہ سے ایسے کام کررہی ہے جس سے اس کی مسلم دشمنی کا اظہار ہوتا ہے۔ شاید وہ 2024ء کے عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس طرح کے امن دشمن اور نفرت پر مبنی اقدامات کررہی ہے۔

یوگی حکومت نے اُتر پردیش ریاست میں گائیوں کی آبادی کا پتہ چلانے کے لیے ریاست میں جیو تکنیک نافذ کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ جہاں تک اُتر پردیش میں گائیوں کی تعداد کا سوال ہے‘ اس کے لیے گائیوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا‘ جس میں آوارہ گائے بھی شامل ہیں۔ دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں یوگی حکومت کے حوالے سے بتایا کہ ریاست میں فی الوقت بے سہارا مویشیوں کی افزائش کے لیے 6889مراکز ہیں جہاں 11لاکھ 85ہزار گائیوں کو محفوظ رکھا گیا ہے جبکہ ایک لاکھ 85ہزار سے زیادہ گائے گاؤ سیوکوں کو سونپ دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ 2019ء میں بھارت کی مرکزی حکومت نے مویشی شماری کی تھی جس کے مطابق صرف اُترپردیش میں مویشیوں کی تعداد ایک کروڑ 90لاکھ تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اُترپردیش کو جہاں آوارہ مویشیوں بالخصوص آوارہ گائیوں کا مسئلہ درپیش ہے‘ وہیں فرقہ پرستوں اور ان کی نفرت پر مبنی مہم کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔

(بشکریہ: سیاست انڈیا)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں