ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

مسئلہ فلسطین کا ممکنہ حل …(2)

تحریر: اداریہ: نیویارک ٹائمز

اگر اسرائیل کے سعودی عرب، قطراور انڈونیشیا جیسے عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جاتے ہیں تو اس کے جواب میں اسرائیل اور فلسطین کے دو ریاستی حل کو بھی بحال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ محمود عباس کی زیر قیادت کام کرنے والی فلسطینی اتھارٹی غزہ کی جنگ سے بظاہر دور ہی نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح بائیڈن حکومت نے موجودہ جنگ بندی میں جو بھی تھوڑی بہت سہولت کاری کی ہے وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ میں خواہ نقطۂ نظر میں ایک تقسیم پائی جاتی ہے مگر وہ اس تنازع میں اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے۔

ان عوامل کو پیش نظر رکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک بنیاد موجود ہے؛ تاہم اس حوالے سے کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ حماس کے پاس غزہ پر حکومت کرنے کا جو بھی قانونی جواز موجود تھا وہ اس نے سات اکتوبر کے حملوں کی وجہ سے کھو دیا ہے۔ ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو بھی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اسے ایک نئی قیادت اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے ساتھ پائیدار امن قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو چاہئے کہ وہ یہ بات بھی ثابت کرے کہ حماس کے مقابلے میں اس کے پاس غزہ اور مغربی کنارے پہ حکومت کرنے کی ایک بہتر اور مؤثرصلاحیت موجود ہے۔ اپنی موجودہ شکل میں وہ یہ سب کچھ کرنے کی اہلیت سے عاری نظر آتی ہے؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ اہم پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اسرائیل اور اس کے سپورٹرز کو بھی یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ کوئی برابری کی جنگ نہیں ہے۔ یہاں اسرائیل ایک بالادست طاقت ہے اور اس تنازع کی موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو ایک بار پھر یہ چاہئے کہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے خود ایک قدم آگے بڑھے۔ لیکن اسرائیلی عوام کی اکثریت کو اصل تشویش اپنی سلامتی اور بھروسے کی ہے اور ا ن دونوں باتوں کے لیے ایک بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جو یہ ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر انہیں تحفظ و سلامتی ملے گی نہ بھروسہ اور اعتماد حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی دوسری شکل کیا ہو گی؟ فلسطینی سرزمین پر قبضہ برقرار رہے گا اور اسرائیل مقبوضہ علاقے اپنے اند ر ضم کرتا رہے گا اور یہ ایک بدترین صورت ہو گی۔ اگر چوائس کرنا پڑے تو اسرائیل کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرے جس نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی آباد کاری کے خلاف کام کیا ہے۔

نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کبھی امن حاصل نہیں کر سکتا۔ اب ان کی عمر 74 برس ہو چکی ہے۔ جب اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے خلاف بطور احتجاج ایک اسرائیلی شدت پسند نے وزیراعظم رابن کو قتل کیا تھا تو ان کے قتل کے بعد ہی نیتن یاہو کو 1996ء کے الیکشن میں پہلی سیاسی فتح نصیب ہوئی تھی اور اس وقت سے وہ اسرائیلی وزیراعظم کے آفس میں آتے جاتے رہے ہیں۔ 2009ء میں نیتن یاہو نے بار ایلان یونیورسٹی میں اپنی وہ مشہور تقریر کی تھی جس میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے اصول کو تسلیم کیا تھا مگر ایک شرط کے ساتھ وہ یہ کہ فلسطینی ریاست کے پاس فوجی وسائل نہیں ہوں گے، نیز یہ کہ فلسطینی عوام بھی اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کر لیں۔ مگر انہوں نے اب تک جو کام کیا ہے وہ مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادکاروں کی بستیوں میں توسیع ہے اور امن مذاکرات میں مزید رکاوٹیں حائل کرنا۔ ان کی حکمت عملی یہ رہی کہ مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کیا جائے حالانکہ وہ یہ بات بھی جانتے تھے کہ اتھارٹی امن و امان بحا ل رکھنے میں اسرائیلی حکام کے ساتھ مکمل تعاون کرتی آئی ہے جبکہ حماس نے غزہ میں اپنی قوت میں اضافہ اور استحکام پیدا کیا ہے۔ اس طرح انہیں ہر امریکی صدر کو یہ بتانے کا موقع مل گیا کہ ہم تو امن سے محبت کرتے ہیں مگر ہمیں کوئی فلسطینی پارٹنر نہیں مل رہا‘ وہ آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔ بہت سے اسرائیلی شہری نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہائی دائیں بازو کے ارکان پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسرائیلی فوج میں تقسیم پیدا ہو گئی ہے اور انہوں نے عدلیہ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مغربی کنار ے میں فوج کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے اس کی توجہ غزہ سے ہٹ گئی۔ اسرائیلی میڈیا نے سات اکتوبر کے حملوں سے بہت پہلے یہ رپورٹ کیا تھا اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی نیتن یاہو کو وارننگ دی تھی کہ حماس اور حزب اللہ کو اسرائیلی سوسائٹی میں پائی جانے والی تقسیم کا بھرپور ادراک ہے اور وہ اس میں کافی کشش اور ترغیب محسوس کر رہی ہیں۔ حماس کو یہ بھی ادراک تھا کہ اسرائیل پر خوفناک حملے کے جواب میں غزہ کے بے یارو مدد گار سویلینز کے خلاف اسرائیل کی طرف سے شدید ردعمل آئے گا جبکہ اس نے کبھی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا کہ اسرائیل کا خاتمہ ہی اس کا ہدف ہے۔

جب ایک طرف نیتن یاہو اپنے منصب پر فائز ہیں اور حماس بھی غزہ میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ایسے میں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ پائیدار امن کے لیے کوئی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ دریا سے سمندر تک کا دعویٰ کرنے والے شدت پسند‘ جو ایک دوسرے کا وجود مٹانے پر تلے ہیں‘ وہ قیام امن میں کوئی تعمیری کردار نہیں ادا کر سکتے۔ پھر بھی امن کا قیام ممکن ہے اور ایسا ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والے سابق عسکریت پسندوں کو بھی ان میں شامل کر لیں۔ اس تنازع کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ امن مذاکرات کی اولین شرط یہی ہوتی ہے کہ امن کے خواستگار پہلے اپنے ہتھیار ڈالیں اور ایک دوسرے کو تکلیف دینے والی رعایتیں دینے کے لیے تیار رہیں۔ آئزک رابن ایک ملٹری لیڈر کی طرح نظر آتے تھے جبکہ اس وقت یاسر عرفات کو مغرب میں ایک دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آج کے بہت سے اسرائیلی سیاسی لیڈرز بھی عسکری بیک گرائونڈز سے آئے ہیں۔ اسی طرح کئی فلسطینی لیڈرز اسرائیلی جیلوں میں وقت گزار چکے ہیں۔ امید ہے کہ دو اطراف کے لیڈروں کو یہ ادراک ہو گیا ہو گا کہ ایک دوسرے کے خدشات اور خواہشات کو قبول کرنے اور امن سے زندگی گزارنے کا وقت آ گیا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں